کوئلہ کان کن : اب پہاڑوں سے خوف ہونے لگا ہے۔
‘‘ صاحب ! میں کیا کروں اپنوں کو بھوکے مرتے دیکھوں یا خود روز مر کر ان کی زندگی کی ضرویات پورا کرلو۔ ماں روز فون کرکے کہتی ہے بیٹا بس تم آ جا ہمیں پیسے نہیں اپنا بیٹا چاہیے ۔ ہم بھوکے رہ گئے ۔ لیکن تمھارے بنا ہم رہ نہیں پائں گے ۔ تمھارے ابو کے ناتواں کاندھے تمھارے جنازے کا وزن اٹھا نہیں پائیں گے
تحریر : عبدالکریم
کوہ چلتن سیاہ چادر پھیلا رہا تھا۔ جس سے سردی کی شدت میں اضافہ ہورہا تھا ۔ کوئٹہ کی سردی کا نقطہ انجماد منفی سات تک پہنچ گیا تھا ۔لیکن اس سخت سردی کی باوجود کوئٹہ کے مغربی بائی پاس پر ہزارہ برادری کئی دنوں سے دھرنادیئے بیٹھی تھی۔ دھرنے میں زندہ انسانوں کے ہجوم میں سات مزدوروں کی سربریدہ جسد بھی سفید کفن میں لپٹے دھرنے میں رکھے ہوئے تھے۔ جو بےحس انسانوں اور حکمرانوں سے انصاف کی توقع کررہے تھے۔ دھرنے میں بیٹھی معصوم ریحانہ جن کی آنکھوں میں بے بسی کے باعث اشک خشک ہوچکے تھے۔ وہ اپنے والد کی تصویر ہاتھ میں لیے بار بار اس کی کو دیکھ رہی تھی اور پھر اس کو اپنی دوپٹے کے پلو سے صاف کرکے چوم رہی تھی ۔ان کی خشک گول مٹول اور چہرے میں اندر سے دھنسی ہوئی آنکھوں میں ایک ماتم برپا تھا ۔ ان کے خواب ریزہ ریزہ ہوچکے تھے ۔ ان سے ان کی محبت اور سایہ چھن گیاہے ۔ ان کے ابو کریم بخش کا خواب تھا کہ وہ ریحانہ کو ڈاکٹر بنتا دیکھیں ۔وہ اس خواب کو پورا کرنے کیلئے مچھ میں کئی ہزار فٹ گہرے کان سے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر کوئلہ نکالتے تھے ۔ریحانہ کی طرح لاکھوں مزدورں کی بیٹیوں کے والد اور بھائی بلوچستان کے کوئلہ کانوں میں موت کی سائے میں کام کررہے ہیں۔

رحمت اللہ خان درد کی سمندر میں کھود پڑھا ۔ درد کی لہریں ان کی آنکھوں کےنیلے سمندر کی ساحل سے ٹکرا رہی تھی ۔ان کی زندگی کے دکھ درد پر ایک الگ کتاب تحریر کی جاسکتی ہے ۔ وہ اپنا درد ایک تسلسل کے ساتھ بیان کررہا تھا ۔
وہ کہہ رہا تھا ‘‘ صاحب ! میں کیا کروں اپنوں کو بھوکے مرتے دیکھوں یا خود روز مر کر ان کی زندگی کی ضرویات پورا کرلو۔ ماں روز فون کرکے کہتی ہے بیٹا بس تم آ جا ہمیں پیسے نہیں اپنا بیٹا چاہیے ۔ ہم بھوکے رہ گئے ۔ لیکن تمھارے بنا ہم رہ نہیں پائں گے ۔ تمھارے ابو کے ناتواں کاندھے تمھارے جنازے کا وزن اٹھا نہیں پائیں گے ۔
صاحب! ماں تو ماں ہے نہ اس کو ہر قسم کی تسلی دی لیکن پھر بھی اسے تسلی نہیں ملتی روز فون کرتی ہے ۔ لیکن مجھے تو اپنے گھر کے معاشی حالات کا پتا ہے ۔ انہی مزدوری کے پیسوں سے تو ہمارا گھر چلتا ہے ۔ خطرے کے باوجود نہیں جاسکتا گھر بس صاحب اس کو ہمارا قسمت سمجھے ’’
رحمت اللہ خان کے برعکس مچھ واقعے کے بعد بہت سے کان کنوں نے کام چھوڑ دیا جس کی وجہ سے بلوچستان میں بہت سے کوئلے کان بند پڑگئے۔ پاکستان ورکرز فیڈریشن کے مطابق پانچ سو کے قریب مذکورہ واقعے کے بعد بند ہوئے ہیں ۔ اور دس ہزار کے قریب مزدوروں نے کام چھوڑا ہے ۔ مارواڑ میں واقعے کوئلے کی کانیں مکمل طور پر بند ہوچکی ہیں ۔ پاکستان ورکرز فیڈریشن کے مطابق تمام بڑی کمپنیوں نے اپنا کام بند کیا ہوا ہے ۔ اور مزدورں میں بھی ایک سخت قسم کا خوف کی فضا قائم ہے۔
یاد رہے بلوچستان میں سات اضلاع میں پاکستان ورکرز فیڈریشن کے اندازے کے مطابق کل ساڑھے تین ہزار سے زائد کوئلہ کانیں موجود ہیں۔ ان کے مطابق دو لاکھ کے قریب مزدور ان کوئلہ کانوں میں کام کرتے ہیں ۔ ان مزدورں کا تعلق شانگلہ ، سوات، دیر، قلعہ سیف اللہ ، کوئٹہ اور افغانستان سے ہے ۔
بلوچستان کے سورینج ۔ مارواڑ ۔ شاہرگ ۔ ہرنائی ، کھوسٹ ، سنجدی ، مچھ ، چمالنگ ، ڈیگاری، پیراسماعیل اور دیگر علاقوں سے کوئلہ نکلتا ہے ۔
بلوچستان میں کوئلہ کانوں کیلئے جو قانون مائنز ایکٹ ۱۹۲۳ موجود ہے وہ اس کی عمر سو سال تک پہنچ رہی ہے۔ تاحال اس بابت بلوچستان میں مسلسل واقعات کے باوجود قانون سازی نہیں کی گئی۔ اس سے حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔