بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن اپنے قیام کے وقت ہی سے ایک بہت وسیع تنظیم رہی ہے ۔ یہ تنظیم پروگریسو نیشنلزم کی داعی رہی ہے۔
اس کے الیکشنز یعنی کونسل سیشنز بہت ریگولر اور جمہوری انداز میں منعقد ہوتے رہے ہیں۔ اُس کے اپنے ترجمان رسائل چھپتے رہتے ہیں۔ اُس کی کچھ دستاویزات تو تاریخی اہمیت کے حامل رہی ہیں۔
انتہائی گنجلک ملکی اور بین الاقوامی معاملات پہ اس تنظیم کا موقف عموماً بہت واضح اور بولڈ رہا ہے ۔
دوسری قوموں اور ممالک کی پروگریسو طلبا تنظیموں تحریکوں سے اس کے تعلقات بہت قریبی رہے ہیں اور بین الاقوامی دنیا میں اِس کی کافی تعظیم اور وقار موجود ہے ۔
یہ تنظیم ایک نیم قبائلی اور نیم فیوڈل معاشرے میں سیاست کرتی ہے ۔ مگر اپنی جمہوری اور روشن فکر روایتوں کے سبب یہ کبھی بھی کنز روٹیو نہیں رہی ہے ۔
بی ایس او کی قیادت خواتین کے ہاتھ میں
ایک حیران کن خوشگواری اُس وقت آئی جب سندھ ،پنجاب اور بلوچستان میں پھیلی اِس بڑی تنظیم کی سربراہی ایک فیمیل کو ملی: کریمہ بلوچ کو۔
یہ ایشیا بھر میں ایک انوکھی بات تھی ۔ افغانستان ایران ہندوستان اور دیگر پڑوسی ممالک میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اور ہمارے نسبتاً پسماندہ معاشرے کو ہی یہ خوش نصیبی نصیب ہوئی ۔
ایک قبائلیت والے معاشرے کو ،ایک پدرسری معاشرے کی جہل بھری روایات والے سماج کو ۔
مشکل حالات میں قیادت ملنا
عمومی طور پر سیاست کے لیے ، اور بالخصوص کریمہ کی تنظیم کے لیے اُس وقت بہت ہی مشکل حالات تھے۔ مگر محترمہ کریمہ نے بہت ہی تدبر سے اُسے چلایا۔ اُس نے اپنی بھی زبردست تربیت کی۔
شعوری سطح پر بھی وہ بہت بلند ہوتی گئی۔ وہ کتاب پڑھتی تھی ۔ انٹرنیٹ سے مدد لیتی تھی۔ بحث مباحثہ سے سیکھتی اور دوسروں کو سکھاتی تھی۔
ایک بہت ہی باوقار لباس میں رہ کر ، ایک بہت ہی سنجیدہ انداز اپناتے ہوئے ، کبھی اوپن اور کبھی روپوش رہ کر وہ اپنی آرگنائزیشن کو چلاتی رہی۔
دلیل سے ،مثال سے ، بہادری سے اور بہت عقلمندی سے ۔ وہ ایک کمپوزڈ نوجوان لیڈر تھیں ۔ کروفر سے دور، جذباتیت اور جلد بازی سے پرے۔
بلاشبہ اُس کا بی ایس او کا سربراہ بننا، اور اُسے بہت کامیابی سے چلانا ہمارے خطے میں اس لیے بھی بہت اہم بات تھی کہ ہماری سیاست بہت پولرائزڈ رہی ہے۔
بالخصوص حالیہ زمانوں میں تو ہمارے ہاں کی سیاست بہت متضاد اپروچ والی ،بہت عدم برداشت والی رہی ہے ۔ مگر اُس کے باوجود اُس خاتون نے بہت تدبر، حکمت اور فعال انداز میں بی ایس او کو چلایا۔
تاریخ اُس کی دیگر باتوں کو تو یاد رکھے گی ہی بالخصوص اُس کی شہادت کی موت کو۔ مگر ایک خاتون لیڈر کے بطور اُس نے سٹوڈنٹ پالٹکس کو جو کامیاب موڑ عطا کیااسے فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔
کریمہ جائز طور پر ہماری تاریخ کی بڑی خواتین یعنی ہانی ، ماہناز ، گوہر ، سیمک ، گل بی بی اور فرزانہ کی فہرست میں شامل رہے گی۔
جواں مرگ
وہ بہت زمانوں تک نوجوانوں بالخصوص خواتین سیاسی کارکنوں لیڈروں کو انسپائر کرتی رہے گی۔اُس کی جواں مرگ شہادت سے بلاشبہ بلوچستان مستقبل کی ایک اچھی اورمدبرسیاسی لیڈر سے محروم ہوگیا