معلومات تک رسائی کا قانون

تحریر عادل جہانگیر
ابتدائے آفرینش سے انسان نت نئی چیزوں کو جاننے اور انہیں کھوجنے کی جستجو میں سرگرم عمل رہا ہے۔چونکہ انسان نے شروع ہی سے یہ طے کر لیا تھا کہ وہ اپنی بقاء کے لئے اجتماعی طور پر زندگی گذاریں گے تاکہ بیرونی حملہ آورں اور جنگلی درندوں کا مقابلہ کیا جا سکے اور انسانی خوراک کا بندوبست بھی اجتماعی طور پر کیا جاسکے ۔اسی خیال کی بنیاد پر ریاستیں وجود میں آئی ۔ریاستوں کا کام اپنے عوام کی بنیادی حقوق کی پاسداری کرنا تا کہ عوام منصفانہ طور پر اپنے حقوق حاصل کر سکیں اور ریاست خوشحالی کی جانب گامزن ہو سکے ۔حکومت کو اپنے تمام امور کی بجا آوری کے لئے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لئے عوام سے ٹیکس وصول کیئے جاتے ہیں ۔اصل مقصد عوام کی خوشحالی کے لئے انہیں سہولیات پہنچانا ہوتاہے۔در حقیقت جس قدر حکومت اور عوام کے درمیان اعتماد ہوگا اتناہی طرز حکمرانی کامیاب تصور کی جائے گی ۔بصورت دیگر عوام کا حکومت سے اعتماد ختم ہوگا اگر حکومت عوام کے سامنے جواب دہ ہوگی تو عوام اور حکومت کے درمیان میں نزدکیاں بڑھیں گے ۔اور عوام سزا کے خوف کے بجائے بخوشی حکومتی احکامات بجا لائیں گے۔
معلومات تک رسائی کا قانون پہلی مرتبہ 1776 میں سویڈن میں بنا اورتمام حکومتی معلومات کے دروازے عوام کے لئے کھول دیئے گئے ۔بعد از مختلف یورپین ممالک بشمول امریکہ میں اس قانون نفاذ کیا گیا ۔
مملکت خداداد پاکستان میں معلومات تک رسائی کے حق سے آشنائی پہلی مرتبہ ایشین ڈولپمنٹ بینک کی امداد معلومات تک رسائی کے قانون سے مشروط کی گئی جس کی وجہ سے سال 2002میں مجبوراً ایک آرڈینس کے زریعے قوانین پاس کیئے گئے آرڈینیس کے زریعے پاس ہونے والے قوانین کو فریڈم آف انفارمیشن کا نام دیا گیا چونکہ یہ قانون بہت جلد بازی میں اور ایشین ڈولپمنٹ بینک کی امدالینے کےلئے بنایاگیا تھا کا عمل درآمد کو نہایت پیچیدہ اور مشکل رکھا گیا جس کہ وجہ سے یہ عوام میں بذیرائی حاصل نہ کر سکا اور نہ ہی عوام کو اس بابت کو ئی آگاہی دی گئی ۔
معلومات تک رسائی کاقانون پنجاب ،خیبر پشونخوا،سندھ اور وفاق میں بھر پور طریقے سے اپنے فرائض سر انجام دے رہی ہے ۔ مگر بلوچستان میں گو کہ 2021 میں یہ قانون اسمبلی سے پاس ہو چکا ہے مگر ابھی بھی کمیشن بننے کا منتظر ہے ۔تاکہ دیگر صوبوں کہ طرح بلوچستان کے عوام کے مسائل ان کے دہلیز پر حل ہو سکیں ۔
”بلوچستان میں شفافیت اور معلومات تک رسائی کو یقینی بنانے کے لئےجہاں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آرٹیکل 19Aثابت کرتا کہ قانون کے زریعے ضابطے اور مناسب پابندیوں کے تحت ہر شہرکو عوامی اہمیت کے تمام معاملات میں معلومات تک رسائی حاصل کرنے کا حق حاصل ہوگا اور جہاں ضروری کہ شہریوں کو جمہوری عمل میں معنی خیز حصہ لینے اور عوامی امور میں اپنی شمولیت اور شراکت کو بہتر بنانے کے لئے معلومات کا حق حاصل ہے ”۔
معلومات تک رسائی کا قانون نہ صرف انفرادی زندگی بلکہ اجتماعی زندگی پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں ۔یہ قانون عام آدمی کو سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے ۔عوام معلومات تک رسائی بلوچستان کے قانون کے تحت حکومتی اداروں سے محض ایک سادہ کاغذپر درخواست لکھ کر حاصل کر سکتے ہیں ۔ اگر مقررہ پندہ ایام میں معلومات نہ ملی تو اپنی شکایت صوبائی انفارمیشن کمیشن کو بھیج سکتے ہیں ۔ جو کہ متعلقہ محکمہ یا مجاز افسر کی سر زنش اور شکایت کنندہ کی شکایت پر فوری عمل درآمد کرتی ہے ۔
یہ قانون ایک بہترین قانون ہے جو کہ آپ کے مسائل آپ کے گھر کے دہلیز پہ حل کر سکتا ہے مثا ل کے طور پر کسی نے درخواست دی کہ میرٹ پہ آنے کے باوجود بھی اسے نوکری نہیں ملی اسے بتایاجائے کہ میرٹ لسٹ میں اس کا کیامقام ہے۔پالیسی اور دیگر اہلیت بھی بتائی جائے جس پر نہ صرف درست تصدیق شدہ معلومات دینی پڑیں گے بلکہ نوکری بھی دینی پڑے گی ۔
بلوچستان میں معلومات تک رسائی کے حق میں انفرادی اور اجتماعی طور پر غیر سرکاری تنظموں خصوصاً ایڈ بلوچستان کا رول نمایا ں ہے ۔ایڈ بلوچستان نے معلومات تک رسائی کا قانون کے لئے انتھک محنت کی اور کر رہی ہےتاکہ یہ قانون کمیشن کی صورت میں فعال کردار ادا کرسکے اور بلوچستان کے عوام بھی باقی ماندہ صوبوں اور وفاق کی طرح معلومات تک رسائی کے قانون سے مستفید ہو سکے ۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.