کوئٹہ میں مہنگائی نے عوام کا جینا محال کردیا، منافع خوروں کو روکنے والا کوئی نہیں

کوئٹہ   صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کا جینا محال کردیا ہے۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں پرائس کنٹرول کمیٹی نے چپ سادھ رکھی ہے دکانداروں سمیت ریڑھی بانوں نے اپنی مرضی کے ریٹ مقرر کرتے ہوئے سرکاری نرخنامے کو ہوا میں اڑاتے ہوئے گراں فروشی کو فروغ دے رہے ہیں۔

پرائس کنٹرول کمیٹی منافع خوری کی روک تھام کیلئے کوئی اقدام نہیں کررہی ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے کوئٹہ میں اشیاءخوردنوش کے مقرر کردہ نرخوں کے مطابق چینی فی کلو 140 روپے، آٹا160 روپے فی کلو، گھی420 سے 390 روپے فی کلو، کدو70 سے 800 روپے، بھنڈی 240 سے 290 روپے، کھیرا 112 سے 125 روپے، بند گوبھی 160 سے 175، مٹر 180 سے 200 روپے، ٹماٹر100 روپے سے 120 روپے، شلغم 50 سے 60روپے، توری 140 سے 170 روپے، آلو سفید 30 سے 38روپے، آلو سرخ 40 سے 50روپے، پیاز 120 سے 140 روپے،لہسن 550 سے570 روپے، ادرک 420 سے 165 روپے، مالٹا 80 سے 100 روپے، امرود 125 سے 150 روپے، لیموں لاہوری 83 سے 95، چکو 120 سے 150 روپے۔ مرغی کا گوشت 700 روپے، انڈے فی درجن 430 روپے، مچھلی 550 سے 710روپے، بکرے کا گوشت 2000 سے 2200 روپے،گائے کا گوشت 1100 روپے فی کلو فروخت ہورہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں
1 of 8,938

لیکن دکانداروں اور ریڑھی بانوں نے سرکاری مقرر کردہ نرخوں کو ہوا میں اڑاتے ہوئے اپنے من مانے ریٹ مقرر کر رکھے ہیں اور شہریوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ پرائس کنٹرول کمیٹی سمیت دیگر ادارے جو اشیاءخوردونوش کی قیمتیں کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہیں۔ منافع خور قانون کی رٹ نہ ہونے کے باوجود بلا خوف و خطر گراں فروشی کررہے ہیں۔ پرائس کنٹرول کا نظام نہیں جو منافع خوری کی روک تھام کر سکے اس میں مکمل طور پر ناکام ہے آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی میں ذخیرہ اندوز بھی عوام کا امتحان لے رہے ہیں۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.