بلوچستان میں تعلیمی بحران: 30 لاکھ بچے اسکولوں سے محروم

تحریر: عبدالغفار بگٹی

بلوچستان میں تعلیمی نظام شدید بحران کا شکار ہے، جہاں لاکھوں بچے اسکول جانے سے قاصر ہیں۔

صوبے کی مجموعی آبادی کا تقریباً نصف حصہ بچوں پر مشتمل ہے، جن کی تعداد 72.31 لاکھ ہے۔

لیکن افسوسناک طور پر 30 لاکھ (41%) بچے بنیادی تعلیم حاصل نہیں کر پا رہے۔

تعلیم کی اس محرومی کے باعث صوبے کا مستقبل غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہوتا جا رہا ہے، اور ماہرین کے مطابق اس تعلیمی پسماندگی کے نتیجے میں شدت پسندی کے رجحانات مزید فروغ پا سکتے ہیں۔

بلوچستان میں اسکولوں کی تشویشناک صورتحال

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں 15,096 اسکولز رجسٹرڈ ہیں۔

لیکن ان میں سے 22 فیصد (یعنی 3,321 اسکول) مکمل طور پر بند ہیں۔

مزید برآں، 50 فیصد (یعنی 7,548) اسکول ایسے ہیں جو صرف ایک کمرے پر مشتمل ہیں۔

جہاں درجنوں طلبہ کو بنیادی تعلیمی سہولیات کے بغیر تعلیم حاصل کرنی پڑتی ہے۔

مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ 81 فیصد (یعنی 12,228) اسکولز صرف پرائمری سطح تک محدود ہیں۔

جس کے باعث لاکھوں بچے میڈل اور ہائی اسکول کی تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔

یہ تعلیمی فقدان نہ صرف بلوچستان کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے بلکہ مستقبل میں سماجی اور معاشی مسائل کو بھی جنم دے سکتا ہے۔

اساتذہ کی کمی اور دیہی علاقوں کی محرومیاں

بلوچستان میں اساتذہ کی کل تعداد 48,841 ہے، لیکن صوبے کو مزید 12,000 اساتذہ کی اشد ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ، 7,000 اساتذہ (15 فیصد) کوئٹہ میں تعینات ہیں، جس کی وجہ سے دور دراز کے علاقوں میں تعلیمی شرح مزید کم ہو رہی ہے۔

خواتین اساتذہ کی تعداد بھی تشویشناک حد تک کم ہے۔ صوبے میں مجموعی طور پر 12,210 خواتین اساتذہ موجود ہیں۔

لیکن ان میں سے 80 فیصد کوئٹہ میں ہی تعینات ہیں، جس کی وجہ سے دیہی علاقوں میں لڑکیوں کے اسکولوں کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔

اساتذہ کی غیر مساوی تقسیم بلوچستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے صنفی امتیاز بھی بڑھ رہا ہے۔

ناقص تعلیمی انفراسٹرکچر

بلوچستان کے 3,000 اسکول ایسے ہیں جن کی چھتیں نہیں ہیں، اور ہر سال بارش یا موسم کی خرابی کے باعث تعلیمی سرگرمیاں معطل ہو جاتی ہیں۔

مزید برآں، 75 فیصد (یعنی 7,500) اسکول صرف ایک کمرے پر مشتمل ہیں، اور صوبے کے 35 میں سے 22 اضلاع میں نصف سے زائد اسکولز ایک یا دو کمروں پر مشتمل ہیں۔

یہ صورتحال تعلیمی معیار کو بری طرح متاثر کر رہی ہے، جس کے نتیجے میں بلوچستان میں پرائمری سطح کے بچوں کی تعلیمی صلاحیتیں انتہائی کمزور ہیں۔

یہ بھی پڑھیں
1 of 8,946

حکومتی ٹیسٹ کے مطابق، پرائمری کے صرف 26 فیصد بچے بنیادی جملے پڑھ سکتے ہیں، جبکہ 30 فیصد بچے ریاضی کے بنیادی اصول (جمع اور تفریق) سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

بلوچستان میں شرح تعلیم اور اسکول چھوڑنے کی شرح

بلوچستان میں تعلیمی بحران کا ایک اور سنگین پہلو یہ ہے کہ 70 فیصد بچے پرائمری مکمل کرنے کے بعد اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔

اس کے بعد ہائی اسکول تک پہنچنے والے بچوں کی شرح صرف 35 فیصد رہ جاتی ہے، جبکہ یونیورسٹی کی سطح تک صرف 1 فیصد طلبہ ہی پہنچ پاتے ہیں۔

اس تعلیمی زوال کی ایک بڑی وجہ نقل کے رجحان میں اضافہ بھی ہے۔

صوبے میں تعلیمی معیار کے فقدان اور تعلیمی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث طلبہ کی ایک بڑی تعداد محض ڈگریاں حاصل کرنے پر توجہ مرکوز رکھتی ہے۔

جس سے تعلیمی قابلیت کا معیار مزید کمزور ہو رہا ہے۔

تعلیمی بجٹ اور حکومتی کارکردگی

بلوچستان کا تعلیمی بجٹ 87 ارب روپے ہے، لیکن اس میں سے صرف 12 ارب روپے ترقیاتی اخراجات کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔

اس کمزور تعلیمی پالیسی کا نتیجہ یہ ہے کہ صوبے کی مجموعی خواندگی کی شرح محض 27 فیصد ہے، جو پاکستان کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔

تعلیمی مواقع کی کمی کی وجہ سے ہر سال 7,000 سے زائد تعلیم یافتہ نوجوان بلوچستان چھوڑنے پر مجبور ہیں۔

گزشتہ پانچ سالوں میں 31,607 افراد بہتر تعلیمی اور روزگار کے مواقع کی تلاش میں صوبے سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔

صوبائی حکومت سالانہ صرف 20,000 نوکریاں فراہم کرتی ہے، جن میں سے 5,000 نوکریاں بھی تعلیم یافتہ افراد کے لیے نہیں ہوتیں، جس کے باعث بلوچستان کے نوجوانوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔

تعلیمی بحران کے اثرات اور ممکنہ حل

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بلوچستان میں تعلیمی نظام کو بہتر نہیں بنایا گیا تو شدت پسندی، بیروزگاری، صحت کے مسائل، اور معاشی عدم استحکام جیسے چیلنجز مزید شدت اختیار کر سکتے ہیں۔

تعلیم کی فراہمی نہ صرف صوبے میں شدت پسند عناصر کے اثر و رسوخ کو کم کر سکتی ہے بلکہ نوجوانوں کو ترقی کے مثبت مواقع فراہم کر کے بلوچستان کو ایک مستحکم اور خوشحال صوبہ بنانے میں مدد دے سکتی ہے۔

اس مقصد کے لیے درج ذیل اقدامات ضروری ہیں:

بند اسکولوں کی بحالی اور بنیادی سہولیات کی فراہمی

اساتذہ کی متوازن تعیناتی تاکہ دیہی اور شہری علاقوں میں یکساں تعلیمی مواقع میسر ہوں

لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ اور خواتین اساتذہ کی تعداد میں اضافہ

روزگار کے مواقع کو تعلیم سے جوڑنے کے لیے خصوصی پالیسی تاکہ فارغ التحصیل نوجوانوں کو ملازمتیں مل سکیں

بلوچستان کے عوام اور تعلیم دوست حلقے حکومت سے فوری اور عملی اقدامات کی توقع رکھتے ہیں تاکہ صوبے کے تعلیمی بحران پر قابو پایا جا سکے اور نئی نسل کو ایک روشن مستقبل فراہم کیا جا سکے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.