انصاف پسند عمران خان ،گمشدہ جام کمال اورسلگتا ہوا بلوچستان

ستم ظریفی یہ ہے کہ مہذب معاشروں میں جب سانحات رونما ہوتے ہیں تو ان کے رہنما ان کے سر پر سائے کی طرح کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ اہم ملاقاتیں دورے منسوخ کرکے سانحے کی وقوع پر پہنچ جاتے ہیں ۔مہذب معاشروں میں جب سانحات رونما ہوتے ہیں تو ان کے رہنما ان کے سر پر سائے کی طرح کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ اہم ملاقاتیں دورے منسوخ کرکے سانحے کی وقوع پر پہنچ جاتے ہیں ۔

                                                              تحریر: عبدالکریم
کوئٹہ کی خون جما دینی والی سردی میں تابوتوں میں لاشیں ہیں۔ بے روح اجسام اور ان جسموں کے سرہانے بیٹھے ان کی لواحقین کے لرزتے لب اور ان پر جمی ہوئی درد اور بے بسی  کی دھول۔
 دھرنے کی  پنڈال میں انسانوں کا جم غفیر تھا جن میں معصوم بچے اور ان بچوں کی آنکھوں میں خوفناک مسقبل کا خوف دور سے جھلک رہا تھا۔ اور وہ معصوم آنکھیں سوال کررہے تھے کہ کہیں ہمیں بھی ہزارہ ہونے کی وجہ سے شناخت کرکے مار تو نہیں دیں گے۔
  
دھرنے میں مردوں کی اجتماع سے پیچھے بیٹھی سہمی ہوئی خواتین جن کی گول مٹول آنکھوں  کی ساحل سے اشکوں کی بجائے بے بسی کی لہریں بڑی شدت سے ٹکرا رہے تھیں۔
ان کو تابوتوں میں ابدی نیند سونے والے مزدورں نوجوانوں میں اپنے بچے، بھائی ، شوہر اور رشتہ دار نظر آرہے تھے ۔ وہ اس خوف میں مبتلا تھے کہ آج نہیں تو کل کو ان کے گھر بھی اگر قتل و غارت کا یہ سلسلہ نہ روکا جاسکا تو جنازے آسکتے ہیں ۔ اور ان جنازوں کو کندھا دینے کیلئے معصومہ کی طرح ان کے گھر میں بھی مرد نہیں ہوں گے ۔
 
یہ بھی پڑھیں
1 of 8,946
دھرنے میں موجود لوگوں کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ وزیراعظم پاکستان دھرنے میں تشریف لائیں  اور ان سے مذاکرات کریں اور انھیں یقین دلائیں  کہ آئندہ ہزارہ کو شناخت کرکے نہیں مارا جائیگا ۔
لیکن وزیراعظم پاکستان عمران خان  کوجو انصاف کے نعرے کے ساتھ برسراقتدار آئے انھیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہے کہ  ہزاروں لوگ سخت سردی میں دن رات گزشتہ چار دن سے سڑک پر لاشوں کے ساتھ بیٹھ کر دھرنا دئے ہوئے ہیں۔

اب ان کے مطالبات تو پیچیدہ  بھی نہیں ہیں۔ جس کو وہ  پورا نہیں کرسکتے ۔ وہ تو جینے کا بنیادی حق مانگ رہے ہیں۔ جس کی ضمانت آئین پاکستان نے انھیں دیا ہوا ہے  ۔
اس ریاستی رویے کی وجہ سے دھرنے کی اسٹیج سے ہر مقرر آتے ہوئے یہی کہتا تھا کہ ریاست کو ہماری  ضرورت نہیں ہے ۔ انھیں ہم عزیز نہیں بلکہ ہمارے وسائل عزیز ہیں ۔ انہی وسائل کیلئے یہ سب کچھ ہورہا ہے ۔

ہزارہ برادری کا یہ شکوہ بجا ہے ۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ مہذب معاشروں میں جب سانحات رونما ہوتے ہیں تو ان کے رہنما ان کے سر پر سائے کی طرح کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ اہم ملاقاتیں دورے منسوخ کرکے سانحے کی وقوع پر پہنچ جاتے ہیں ۔ لیکن بلوچستان کے لوگ چار دن سے مسلسل اپنے انصاف پسند حکمرانوں کو چیخ چیخ کر دعوت دے رہےہیں  کہ برائے کرم آپ تشریف لائیں اور ہمارے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھ لیں ۔ لیکن کہاں بلوچستان کی اتنی اوقات ہے کہ وزیراعظم صاحب ایک میٹنگ چھوڑ کر آجاتے ہیں ۔ لیکن اس کو اپنے کتے کیلئے بہت سارا وقت ہوتا ہے  اور ان کے ساتھ پورا دن گزار لیتا ہے ۔
 اور ستم ظریفی پر ستم ظریفی ملاحظہ کئیجے صوبے کا وزیراعلیٰ جام کمال خان صاحب کا بھی واقعے والے دن سے  کوئی آتا پتہ نہیں  تھا  ۔  وہ واقعے کے دن ٹوئٹر پر غلط معلومات کے ساتھ نظر آیا تھا ۔ اس کے بعد وہ کہاں ہے ۔ کچھ نہیں معلوم لیکن اتنی سی سرسری معلومات ہے کہ وہ بھی دبئی میں دھوپ سینک کر خاموشی سے سارے معاملات کو دیکھ رہا تھا۔ ویسے  وزیراعلیٰ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ واٹس اپ کی ذریعے حکومت چلا رہے ہیں  ۔ ان معاملات سے لگتا ہے کہ لوگوں کی باتوں میں صداقت ہے کہ وہ واٹس اپ وزیراعلیٰ ہے۔ ان کو کوئی پرخاش ہی نہیں ہے کہ کیا ہورہا ہے ۔ان سارے معاملات کو مدنظر رکھ کر آپ قارئین بھی ایک بار سوچ لے کہ دراصل اس صوبے میں ہو کیا رہا ہے ۔
You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.