عالمی ٹیمیں فائن ٹیونگ میں مگن,گرین شرٹس کو بد ستور سیکھنے کی ضرورت ہے, رمیز راجہ

0

کراچی: سابق قومی کپتان اور دور حاضر کے بہترین کمنٹیٹر رمیز راجہ کا کہنا ہے کہ عالمی ٹیمیں گلوبل ایونٹس کیلئے فائن ٹیوننگ میں مگن ہیں تو گرین شرٹس کو بدستور سیکھنے کی ضرورت ہے جن کی انگلش ٹورپر کارکردگی توقعات کے مطابق تسلی بخش نہیں رہی،پاکستانی ٹیم اپنی سمت سے محروم دکھائی دی جو دنیا کی دیگر بڑی ٹیموں کی ہم پلہ محسوس نہیں ہوتی،نوجوان بابر اعظم کو ٹی ٹوئنٹی کپتان بنانے کے باوجود کچھ معمر پلیئرز پر انحصار کیا جا رہا ہے ،انگلینڈ اور آسٹریلیا کی طرح ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی تیاری نہیں ہو رہی جو مایوس کن بات ہے۔ ماہرین کی بڑی تعداد کا خیال ہے کہ پاکستانی ٹیم انگلینڈ کے حالیہ دورے پر اعتماد اور بہتر قوت فیصلہ کے ساتھ میدان میں اتر کر زیادہ بہتر نتائج کا حصول ممکن بنا سکتی تھی تاہم رمیز راجہ کا ایک یو ٹیوب ویڈیو میں کہنا تھا کہ انہیں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی سمت سے محروم دکھائی دی جو دنیا کی دیگر بڑی ٹیموں کی ہم پلہ محسوس نہیں ہوتی کیونکہ اس بات کا تعین ہی نہیں کیا جا سکا کہ اس ٹیم میں نوجوان پلیئرز کو شامل کیا جائے یا پھر تجربہ کار کھلاڑیوں کو موقع دیا جائے۔ رمیز راجہ کا کہنا تھا کہ ایک طرف نوجوان بابر اعظم کو ٹی ٹوئنٹی ٹیم کا کپتان مقرر کردیا گیا ہے لیکن دوسری جانب کچھ معمر کھلاڑیوں پر بدستور انحصار کیا جا رہا ہے اور حیران کن امر یہ ہے کہ انگلینڈ اور آسٹریلیا کی ٹیمیں اپنے کامبی نیشنز کی تیاری کے بعد ان کی فائن ٹیوننگ کرتے ہوئے پلاننگ کی مد میں نت نئے تجربات میں مگن ہیں تو پاکستانی ٹیم اب بھی سیکھنے کی کوشش میں مصروف ہے حالانکہ ان کا یہی خیال ہے کہ جب تک تمام زاویوں سے اپنے کامبی نیشن کا اندازہ نہیں لگایا جاتا تب تک ورلڈ کپ کیلئے مناسب انداز سے تیاری ممکن نہیں ہو سکتی جس کیلئے انگلینڈ اور آسٹریلیا کی ٹیموں کو دیکھ کر سیکھنا ہوگا کہ وہ اپنے کامبی نیشنز پر مسلسل تجربات کرتے ہوئے کس طرح محنت کر رہی ہیں۔رمیز راجہ کا کہنا تھا کہ دنیا کی دیگر ٹیموں کے برعکس پاکستانی ٹیم اور اس کی پلاننگ میں صبر کا فقدان دکھائی دے رہا ہے اور جلد ہی وننگ کامبی نیشن کی تشکیل ممکن نہ بنائی گئی تو حالات پاکستان کرکٹ کیلئے کافی سخت بھی ہو سکتے ہیں جسے اب تک مستحکم اسکواڈ کی صورت میں کامیابی کی طرف گامزن ہو جانا چاہئے تھا۔سینئر کھلاڑیوں کے ٹیم سے اخراج پر ممکنہ عوامی غم و غصے سے متعلق سابق قومی کپتان کا کہنا تھا کہ ٹیموں کے مستقبل کی خاطر بعض اوقات سفاکی کے ساتھ فیصلے کرنا ہوتے ہیں اور حالیہ تناظر میں بھی اس کا یہی حل ہے کہ سخت اقدامات اور فیصلوں کا سہارا لیا جائے کیونکہ عمران خان کی زیر قیادت پاکستانی ٹیم نے جب 1992ء کا عالمی کپ جیتا تو اس میں تجربہ کار پلیئر جاوید میانداد کے سوا زیادہ تر نوجوان کھلاڑیوں پر بھروسہ کیا گیا تھا۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.