رپورٹ: مرتضیٰ زیب زہری
کوئٹہ کے رہائشی دلدار احمد کی زندگی موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی ایک تلخ مثال بن چکی ہے۔ وہ اسپنی روڈ پر رہتے ہیں اور پینے کا صاف پانی حاصل کرنے کے لیے روزانہ 5 کلومیٹر کا طویل سفر طے کرتے ہیں۔
بلوچستان میں پانی کی شدید قلت کا مسئلہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ بارشوں میں کمی، زیر زمین پانی کی سطح میں کمی اور بڑھتی ہوئی آبادی نے پانی کی دستیابی کو ایک بڑا چیلنج بنا دیا ہے۔
دلدار احمد جیسے ہزاروں لوگوں کو روزانہ پانی کی تلاش میں گھنٹوں کا وقت لگانا پڑتا ہے۔
دلدار احمد کا کہنا ہے کہ “پہلے ہمارے گھر کے قریب ہی ایک کنواں تھا جس سے ہم صاف پانی حاصل کرتے تھے لیکن اب وہ خشک ہو چکا ہے۔ اب ہمیں پانی کے لیے دور دراز کے علاقوں میں جانا پڑتا ہے۔
دلدار احمد کی کہانی بلوچستان میں پانی کی قلت کے سنگین مسئلے کو اجاگر کرتی ہے۔
بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں ہر جگہ پانی کے ٹینکرز نظر آتے ہیں لوگ یہ پانی خرید کر استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ شہر میں ٹرینکر مافیہ کا راج ہے۔ فی ٹینکر پانی 15 سو روپے سے 25 سو روپے تک دستیاب ہے۔ لوگ پینے اور دیگر ضروریات زندگی کے لیے پانی خریدنے پر اپنا بڑا سرمایہ خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔
کوئٹہ کے علاقے سریاب روڈ کے رہائشی محمد ایوب نے بلوچستان 24 کو بتایا کہ ان کی ماہانہ تنخواہ 25 ہزار روپے ہے جس میں سے وہ ہر ماہ 4 ہزار روپے کا صرف پانی خریدتے ہیں۔
محمد ایوب کے بقول: ان کے علاقے میں واسا کے نلکے لگے ہیں مگر گزشتہ 15 سالوں سے ان میں پانی نہیں آیا علاقے کا ٹیوب ویل خشک ہوگیا ہے اور حکومت کی جانب سے نئے ٹیوب ویل نہیں لگائے جارہے ہیں، عوامی نمائندے بھی اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی اقدامات نہیں اٹھا رہے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے جاچکی ہے۔
ماہرین کے مطابق، زیر زمین پانی کی سطح 1000 فٹ تک نیچے جانے کی اطلاعات ہیں جو کہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہے۔
کوئٹہ کا شمار ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں پانی کے ذخائر پہلے ہی محدود ہیں۔ تاہم، حالیہ سالوں میں موسمیاتی تبدیلیوں، بارشوں کی کمی اور بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث پانی کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔
کوئٹہ سےتعلق رکھنے والے ماہر ارضیات پروفیسر ڈاکٹر دین محمد کا کہنا ہے کہ زیر زمین پانی کے ذخائر میں کمی کی بڑی وجوہات میں موسمیاتی تبدیلیاں، بارشوں میں کمی، اور غیر معقول طور پر پانی کے استعمال شامل ہیں۔
“اگر اس رجحان کو فوری طور پر نہ روکا گیا تو مستقبل میں کوئٹہ شدید پانی کی قلت کا شکار ہوسکتا ہے۔”
ماہرین کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق، 1980 کے دہائی میں زیر زمین پانی کی سطح 200 فٹ تھی، جو 2024 تک 1000 فٹ تک نیچے جا چکی ہے۔ یہ تقریباً 80 فیصد کمی ہے جو کہ تشویش کا باعث ہے۔
محکہ واساء کیا کررہا ہے؟
کوئٹہ شہر کو پانی کی فراہمی کے ادارے واساء حکام کا کہنا ہے کہ شہر میں یومیہ پانی کی ضرورت 5 کروڑ گیلن ہے۔ واسا کی جانب سے شہریوں کو روازنہ 3 کروڑ گیلن پانی فراہم کیا جارہا ہے جبکہ شہر میں پانی کی قلت 2 کروڑ گیلن روازنہ ہے۔
انتظامیہ کہنا ہے کہ اسپن کاریز اور ولی تنگی ڈیم سے پہلے وافر مقدار میں شہر کو پانی فراہم کیا جااتا تھا مگر اب وہ بھی کم ہوگیا ہے اور شہر کی آبادی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق کوئٹہ شہر میں واسا کے تقریباً 4 سو سے زائد ٹیوب ویل ہیں جن سے 1 سو کے قریب ٹیوب ویل خشک ہوچکے ہیں۔
کوئٹہ میں پانی کی قلت نے نہ صرف روزمرہ کی زندگی کو مشکل بنا دیا ہے بلکہ معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔
اگر اس مسئلے کا فوری حل تلاش نہ کیا گیا تو آنے والے دنوں میں یہ صورت حال مزید سنگین ہو سکتی ہے۔
حکومتی سطح پر پانی کے بہتر انتظام اور ذخائر کی بحالی کے اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ اس بحران پر قابو پایا جا سکے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پانی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکومت کو فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
ان میں پانی کے ذخائر کے بہتر انتظام، عوام میں شعور بیدار کرنے، اور پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے سخت قوانین شامل ہیں۔ مزید برآں، نئے ڈیموں کی تعمیر اور بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے منصوبے بھی ضروری ہیں۔