کوئٹہ ( نمائندہ بلوچستان 24)بلوچستان اسمبلی نے بلوچستان کو خشک سالی کے باعث آفت زدہ قرار دینے سے متعلق مشترکہ قرارداد منظور وکرلی
وفاقی حکومت خشک سالی اور تباہ حال معیشت کے پیش نظر زمینداروں کے قرضے اوربجلی کے واجبات معاف کرے
زمینداروں کو خصوصی زرعی پیکج بلاسود قرضے اور پانی کے منصوبوں کے تحت ہر ضلع میں تین ہزار سولر ٹیوب سمیت ڈیموں کی تعمیر کے لئے فنڈزفراہم کرے۔
خشک سالی سے متاثرین کے لئے بے نظر انکم سپورٹ پروگرام سے پندرہ ارب روپے تمام علاقوں کے لئے مختص کئے جائیں،
بلوچستان کے نہری علاقوں کو ارسا کے فارمولے کے تحت کاشتکاری کے لئے پانی کی فراہمی کو ہر صورت ممکن بناتے ہوئے ماضی میں صوبے کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا ازالہ کیا جائے ۔قرارداد میں مطالبہ
اسمبلی کا اجلاس پانچ نومبر کو ڈپٹی سپیکر سردار بابرخان موسیٰ خیل کی زیر صدارت منعقد ہوا
اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے ایوان میں توجہ دلاؤ نوٹس پیش کرتے ہوئے صوبائی وزیر محکمہ پی ڈی ایم اے سے استفسار کیا کہ
کیا یہ درست ہے کہ بلوچستان بالخصوص خاران ، نوشکی اور دالبندین کے عوام کا ذریعہ معاش زراعت اور مالداری سے وابستہ ہے جو خشک سالی کے باعث مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے
اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو کیا حکومت ان اضلاع کو قحط زدہ قرار دیتے ہوئے خصوصی پیکج دینے کا ارادہ رکھتی ہے
صوبائی وزیر پی ڈی پی ایم اے میرسلیم کھوسہ کا کہنا تھا کہ گزشتہ حکومتوں کی درست پالیسیاں نہ ہونے کی وجہ سے خشک سالی سے متاثرہ افراد کی درست معنوں میں امداد نہیں ہوسکی
پی ڈی ایم اے اس حوالے سے کام کررہی ہے اور ہر ضلع سے رپورٹ طلب کرلی ہے چاغی جو کہ خشک سالی کی وجہ سے شدید متا ثر ہے وہاں کے لئے خصوصی امدادی سامان فراہم کیا گیا ہے۔
صوبائی وزیرمیر اسد بلوچ نے حکومتی موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی ریسرچ کے مطابق بلوچستا ن میں آنے والی خشک سالی و قحط سالی انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے
کیونکہ ہم ہوائی اور زمینی خطرات سے دوچار ہیں بلوچستان میں خشک سالی کی وجہ سے 25لاکھ افراد نقل مکانی کرچکے ہیں
بلوچستان کے لوگوں کا انحصار زراعت اور لائیوسٹاک کے شعبے پر ہے مگر بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے دونوں شعبے تباہی کا شکار ہیں ان کا کہنا تھا کہ قدرتی آفات ہر جگہ آتی ہیں جن سے نمٹنے کے لئے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس کے لئے ہم نے کام نہیں کیا
بی این پی کے رکن بلوچستان اسمبلی ثناء بلوچ نے توجہ دلاؤ نوٹس ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے90فیصد اضلاع شدید خشک سالی کی لپیٹ میں ہیں
جہاں لوگ بھوک اور افلاس سے بلبلارہے ہیں وہاں متعلقہ محکمہ ٹینٹ بھیج رہا ہے آیا بھوک سے بلبلانے والے لوگ ٹینٹ کھائیں گے ۔
قحط سالی کے اثرات صوبے کی زراعت معیشت ،لائیو سٹاک سمیت دیگر شعبوں پر پڑ رہے ہیں بلوچستان کے اکثر اضلاع میں لوگ شمسی توانائی سے پانی حاصل کررہے ہیں
جس کی وجہ سے متاثرہ علاقوں سے نقل مکانی نہیں ہورہی،بلوچستان میں اس وقت صومالیہ ، یوکرین سے بد ترین خشک سالی ہے
جس کی وجہ سے بیماریوں میں اضافہ ہورہا ہے اور صوبے کے90فیصد لوگ غذائی قلت کا شکار ہوچکے ہیں۔
انہوں نے تجویز دی کہ توجہ دلاؤ نوٹس کو مشترکہ قرار داد میں تبدیل کرکے وفاقی حکومت سے بلوچستان کے تمام اضلاع کو قحط اور آفت زدہ قرار دے کر خصوصی پیکج کا مطالبہ کیا جائے ۔
وفاقی حکومت بلوچستان کے زمینداروں پر واجب الادا زرعی قرضے اور بجلی کی مد میں بقایہ جات ختم کرکے صوبے میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم کرے ۔
بلوچستان کو سپیشل ایگری کلچر پیکج کے تحت تمام اضلاع کو پانچ سو ٹریکٹر ، بیج ، کھاد اور زمینداروں کو اپنی زمینیں آباد کرنے کے لئے بلا سود قرضہ فراہم کیا جائے۔
تمام اضلا ع میں مویشیوں کے لئے خوراک اور ادویات مہیا کی جائیں ان کا کہنا تھا کہ ہم سب کومل کر صوبے کو مشکل حالات سے نکالنے کے لئے اپنا کردار اد اکرنا ہوگا
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور یو این کی رپورٹ آئی ہے کہ بلوچستان میں آنے والے دنوں میں خشک سالی کی صورتحال مزید گھمبیر ہوگی
اس لئے ہمیں چاہئے کہ اس کے لئے منظم طریقے سے پالیسی بنائیں۔ان کا کہنا تھاکہ اپوزیشن کی جانب سے توجہ دلاؤ نوٹس کو قرار داد کی شکل میں پاس کیا جائے
قرار داد میں سی پیک ، وزیراعظم کا دورہ سعودی عرب و چائنہ جن میں سعودی قیادت سے چھ ارب ڈالر اور چائنہ کی جانب سے تین ارب ڈالر ملے ہیں
ان میں ایک ارب ڈالر بلوچستان کی خشک سالی کے لئے دیئے جائیں تاکہ حالات کو بہتر کیا جاسکے ۔
توجہ دلاؤ نوٹس پر رکن بلوچستان اسمبلی میر جان محمد جمالی کا کہنا تھاکہ بلوچستان اسمبلی نے کالا باغ ڈیم کے خلاف قرار داد منظور کرکے سندھ کا ساتھ دیا
مگر سندھ حکومت ہمیں اپنے حصے کا پانی تک فراہم نہیں کررہی ہے دریائے سندھ سے کیرتھر کینال کے ذریعے صوبے کے گرین بیلٹ کو مہیا کیا جانے والا پانی بند کردیاگیا ہے
لوگ نقل مکانی کرکے دیگر علاقوں کو منتقل ہورہے ہیں ۔ان کا کہناتھا کہ ہم نے فواد چوہدری کو بہت سن لیااب انہیں ہم کو سننا چاہئے
انہوں نے ایوان میں تو جہ دلاؤ نوٹس کو قرار داد کی شکل دے کر اس حوالے سے سپیشل کمیٹی قائم کرنے کی تجویز دی۔
میر جان محمد جمالی کا مزید کہنا تھا کہ ہمسایہ صوبہ بلوچستان کا پانی نہیں دے رہا کچھی کینال کو مکمل کیا جائے اور پٹ فیڈر کو بحال کرکے بلوچستا ن کو اس کے حصے کا پورا پانی دیا جائے ریکوزیشن جمع کرکے آئندہ48گھنٹوں میں دوبارہ اجلاس طلب کریں ۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے نصیر شاہوانی کا توجہ دلاؤ نوٹس پر ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ
بلوچستان کے تمام اضلاع خشک سالی سے متاثر ہیں 1957ء سے 2002ء تک خشک سالی سے بلوچستان کے 45لاکھ درخت اور 5147زرعی ٹیوب،3245چشمے وکاریزات خشک ہوچکے ہیں
لاکھوں مال مویشی قحط سالی کی نذر ہوگئے قحط سالی سے صوبے کو6سو ارب روپے کا نقصان ہوا
گزشتہ برس 4لاکھ ٹن پیاز پیدا کرنے والے صوبے میں اس سال بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے پیاز کی پیداوارصرف ایک سے ڈیڑھ لاکھ ٹن ہوئی ہے ،
جے یوآئی کے سید فضل آغا نے کہا کہ یہ اجتماعی مسئلہ ہے اس توجہ دلاؤ نوٹس کو قرار داد میں تبدیل کرکے اس کی منظوری لی جائے
وفاقی حکومت سے بلوچستان کو آفت زدہ قرار دینے اور صوبے کے لئے خصوصی پیکج کا مطالبہ کیا جائے ۔
جے یوآئی کے میرزابدریکی کا ایوان میں ماشکیل کے زلزلے متاثرین کو معاوضوں کی عدم کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا
کہ 2013ء میں ماشکیل میں آنے والے زلزلے سے 15افراد جاں بحق 4ہزار سے زائد گھروں کو نقصا ن پہنچا
حکومت کی جانب سے متاثرہ لوگوں کو اب تک مالی امداد فراہم نہیں کی گئی حکومت کو اس مسئلے کا نوٹس لینا چاہئے ۔
جے یوآئی کے یونس عزیز زہری کا کہنا تھا کہ توجہ دلاؤ نوٹس میں جن اضلاع کا ذکر کیا گیا ہے اس کے علاوہ بھی بلوچستان کے اکثر اضلاع طویل خشک سالی کی لپیٹ میں ہیں
اگر ایوان اس میں بلوچستان کے تمام اضلاع کو شامل کرے تو یہ اچھی بات ہوگی ۔ان کا کہنا تھا کہ ماشکیل میں آنے والے زلزلے سے متاثرہ افراد کی مالی امداد سے متعلق9کروڑ روپے کی رقم ڈپٹی کمشنر کے اکاؤنٹ میں پڑی ہے حکومت متاثرہ افراد کو رقم کی ادائیگی یقینی بنانے کے لئے اقدامات اٹھائے ۔
بی این پی کے احمد نواز بلوچ ، اصغر ترین ، شکیلہ نوید دہوار،اکبر مینگل ، بابور رحیم مینگل کا توجہ دلاؤ نوٹس پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا
کہ مستونگ ، قلات ، پشین ، موسیٰ خیل ، قلعہ عبداللہ ، قلعہ سیف اللہ کے اضلاع بھی خشک سالی سے شدید متاثر ہیں ، صوبے میں دس لاکھ سے زائد درختوں کو کاٹ دیاگیا ہے
جس سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے دنیا میں لوگ ماحولیاتی آلودگی کے پیش نظر اپنی فیکٹریاں بند کررہے ہیں
تو دوسری جانب بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے ہربوئی میں پٹرول کی تلاش کے لئے درخت کاٹے جارہے ہیں۔
بلوچستان کے 80فیصد لوگوں کا دارومدار زراعت اور مالداری پر تھا مگر گزشتہ کئی سالوں سے بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں خشک سالی کے باعث دونوں شعبے شدید متاثر ہوئے ہیں۔
صوبائی وزیر پی ڈی ایم اے میر سلیم کھوسہ کا کہنا تھا کہ اگر توجہ دلاؤ نوٹس پر ابھی بات کرنی چاہئے تو بھی ہم تیار ہیں اگر ریکوزیشن اجلاس بلا کر ان میں سیرحاصل بحث ہو توا س کے لئے بھی ہم تیار ہیں
حکومت اور اپوزیشن مل کر ایک ڈرافٹ تیار کرکے اگلے اجلاس میں قرار داد پیش کرے تاکہ خشک سالی کے حوالے سے جامع اورمنصوبہ بندی کے تحت اچھی قرار داد کی شکل میں وفاق کو آگاہ کیا جاسکے
بعدازاں ایوان کی رائے سے بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے مشترکہ قرار داد ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ
بلوچستان میں کئی سالوں سے جاری خشک سالی کے باعث بلوچستان کو آفت زدہ قرا ردے کر صوبے کی تباہ حال معیشت وغربت کی پیش نظر صوبے کے تمام زمینداروں کے زرعی قرضے معاف اوربجلی کے واجبات ختم کرکے صوبے بھر میں بجلی کی اٹھارہ گھنٹے فراہمی ممکن بنائی جائے ،
خصوصی پیکج اور بلاسود قرضوں کی فراہمی ممکن بنائی جائے اور اس سلسلے میں بین الاقوامی اداروں سے امداد طلب کی جائے،جسے ایوان نے منظور کرلیا ۔
اجلاس میں اپوزیشن ارکان ثناء بلوچ ، ملک نصیر شاہوانی ، اصغرترین نے زور دیا کہ بلوچستان خشک سالی سے متعلق منظور ہونے والی قرار داد پر ایوان کی کمیٹی بنائی جائے
جس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں جانب سے پانچ پانچ ارکان شامل کئے جائیں صوبائی حکومت کمیٹی کو کوئی مراعات نہ دے صرف وفاقی اداروں سے ملاقات کے لئے سہولت فراہم کرے
اگر کامیابی حاصل ہو یا ناکامی ہو تو دونوں میں حکومت اور اپوزیشن برابر شریک ہوں۔