کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں خضدار میں 17 سالہ لڑکی کے مبینہ اغواء کا معاملہ شدت سے زیر بحث آیا۔
اجلاس کے دوران پرنس آغا عمر احمد زئی نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ خضدار جیسے علاقے میں خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔
انہوں نے چیف آف جھالاوان سے فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کیا اور احتجاجاً اسمبلی اجلاس سے واک آؤٹ کر دیا۔
سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سمیت اپوزیشن کے دیگر رہنماؤں نے بھی واقعے پر انتظامیہ کی خاموشی اور عدم کارروائی پر سخت تنقید کی۔
اپوزیشن کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں خواتین کے تحفظ کے حوالے سے پہلے ہی صورتحال تشویشناک ہے، اور ایسے واقعات پر حکومتی بے حسی مزید مسائل کو جنم دے سکتی ہے۔
اپوزیشن اراکین نے واقعے کی شفاف تحقیقات اور متاثرہ خاندان کو انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاجاً اجلاس سے واک آؤٹ کر دیا۔
متاثرہ خاندان کے مطابق، خضدار سے تعلق رکھنے والی لڑکی کو بااثر شخص نے رشتے سے انکار پر تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد اغواء کیا۔
اہلِ خانہ نے الزام لگایا ہے کہ پولیس اور انتظامیہ تاحال کوئی مؤثر کارروائی کرنے میں ناکام رہی ہے۔
متاثرہ خاندان نے یہ معاملہ مقامی قبائلی عمائدین کے سامنے بھی رکھا ہے، تاکہ اس کے حل کے لیے روایتی ذرائع بھی استعمال کیے جا سکیں۔
دوسری جانب، واقعے کے خلاف خضدار سمیت مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔
آر سی ڈی شاہراہ بھی کئی گھنٹوں سے بند ہے، جس کے باعث مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ لڑکی کو جلد از جلد بازیاب کرایا جائے اور ملزمان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔
حکومتی موقف اور آئندہ کے لائحہ عمل
بلوچستان حکومت نے واقعے کا نوٹس لینے کی یقین دہانی کرائی ہے، تاہم تاحال کوئی واضح پیش رفت سامنے نہیں آئی۔
اسمبلی میں حکومتی نمائندوں کا کہنا تھا کہ حکومت قانون کے مطابق کارروائی کرے گی، اور متاثرہ خاندان کو انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔
اس معاملے پر بلوچستان کی مختلف سیاسی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی سرگرم ہو چکی ہیں۔
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ملزمان کو جلد از جلد گرفتار کیا جائے اور خواتین کے تحفظ کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں۔