رپورٹ: یحییٰ ریکی
گوادر، جو پاکستان کا ایک اہم ساحلی شہر ہے، اب سمندر کی سطح میں اضافے کے باعث شدید خطرات کا سامنا کر رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے سمندر کی سطح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس سے گوادر کی مقامی آبادی کو شدید خدشات لاحق ہیں۔
گوادر کا ساحلی علاقہ جو ماہی گیری اور تجارت کے لیے جانا جاتا ہے، اب سمندری کٹاؤ اور ممکنہ سیلابوں کا شکار ہو سکتا ہے، جس سے مقامی معیشت اور روزگار پر بھی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو گوادر کی ساحلی آبادی کو مستقبل قریب میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، سمندر کی سطح میں اضافہ نہ صرف انسانی آبادی بلکہ ساحلی انفرا اسٹرکچر کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے، جس سے گوادر کی اقتصادی ترقی کو شدید دھچکا لگ سکتا ہے۔
ساحل سمندر پر 60 گھر سمندر برد کیوں ہوگئے؟
غفار بلوچ سُربندن کے رہائشی ہیں وہ بتاتے ہیں کہ2010 میں سمندرکی سطح بلندہونے کی وجہ سے 60 کے لگ بھگ گھر سمندر برد ہوگئے مگر حکومت کی جانب سے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے، سینکڑوں لوگوں احتجاج کرکے سربندن روڈ کو بلاک کردیا۔
اس واقعے کے بعدانتظامیہ نے ”پروٹیکشن وال“تعمیرکیاتاکہ مقامی آبادی محفوظ ہوسکے تاہم سمندرکی لہریں ٹکرانے کی وجہ سے یہ دیوار کمزور پڑ رہا ہے اورجگہ جگہ حفاظتی دیوار ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا ہے جس سے خدشہ ہے کہیں دوبارہ مقامی آبادی سمندر برد نہ ہو جائے۔
گوادر کا علاقے سُربندن میں300کے لگ بھگ گھر آباد ہیں جوسمندر سے 40فٹ کے فاصلے پرہیں۔
وقت کی ضرورت ہے کہ حفاظتی دیوارکودوبارہ تعمیرکرکے گھروں کوسمندربردہونے سے بچایاجائے۔
لوگ کس طرح سمندر کی سطح میں اضافہ سے متاثر ہو رہے ہیں؟
ڈپٹی ڈائریکٹرماحولیات گوادرڈویلپمنٹ اتھارٹی عبدالرحیم نے بتایاسمندی کی سطح میں اضافہ صرف پاکستان نہیں بلکہ پوری دنیاکیلئے ایک خطرہ (Threat)بن چکاہے، سالانہ ایک ملی میٹر سے 3ملی میٹرسالانہ سطح سمندرمیں اضافہ ہوتاہے، پاکستان میں سندھ کاسمندرVulnerableہے جہاں پرٹھٹھہ اورکھاروچاکے علاقے سمندربردہوگئے ہیں۔
بلوچستان 24 سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں سالانہ ایک سے تین ملی میٹر سمندر کی سطح میں اضافہ ریکارڈ کیا گی اہے، اس سے چھوٹی چھوٹی انسانی آبادیاں متاثر ہو رہی ہیں۔سربندر، پھشکان، گوادر، گنز، سونمیانی اوراورماڑہ میں انسانی آبادیاںErodeہوتے جارہے ہیں، زمین سمندربردہوگئی ہے ۔
ان کے بقول: جیونی میں مسجد اور لوگوں کے گھر سمندر برد ہوگئے، جیونی میں 60 کے لگ بھگ گھرانے ختم ہوگئے۔
سال 2010میں جیونی میں مسجد اور 40گھر سمندر برد ہوگئے، جس کے بعد محکمہ ایریگیشن نے وہاں پرحفاظتی بند تعمیر کیا۔
“پھیشکان میں 200فٹ علاقہ سمندر برد ہوگیا یہاں بھی بند تعمیر کیا گیا۔
گوادر میں 2014سے2015میں زیادہ Erosionاس کے علاوہ ہوا، پدی زر ویسٹ بے میں میرین ڈرائیو کی تعمیر کے لئے30فٹ حفاظتی دیوار تعمیر کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ پسنی میں Erosion اورSand depositionہورہی ہے جس سے فش ہاربرناکارہ ہوگیا، سونمیانی میں مینگرووکے علاقے میں سمندری سطح میں اضافے کی وجہ سے مینگرووکٹ رہے ہیں،
اس سے نہ صرف آبادی بلکہ مختلف انواع اورسمندری حیات کے مسکن بھی متاثر ہو رہے ہیں،ساحل کے قریب سمندری کچھوے (Investing Points)آکر انڈے دیتے تھے مگر اب ان کے یہ مسکن بھی سمندر برد ہوگئے ہیں ۔ جہاں پر یہ آکر انڈے دیتے تھے مگر اب یہ نہیں رہے،
انہوں نے کہا کہ متعددگھرانوں سمیت کھیت اورفصلات بھی سمندربردہوگئے ہیں ۔گوادرمیں بہت سارے علاقوں میں زیرزمین گھروں میںسمندرکاپانی نکل رہا ہے جس سے وہاں کی آبادی کوخطرات لاحق ہوگئے ہیں۔
ساحل سمندر میں اضافہ کیوں اور کیسے ہوتا ہے؟
گرین ہاﺅس کے اثرات کی وجہ سے گرمی کی شدت بڑھنے کی وجہ سے برف پگل رہا ہے اوریہ پانی سمندرمیں شامل ہورہا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے درجہ حرارت بڑھ گیاہے، پاکستان میں کے ٹوکے برفانی تودے پگھل رہے ہیں جس سے سمندری سطح میں اضافہ ہوتاہے، گرمی کے موسم میں عموماً پانی کے مالیکیولز دور چلے جاتے ہیں اور لہروں میں اضافے کی وجہ سے پانی زیادہViolentہوجاتا ہے اس سے بھی سطح سمندربڑھ جاتا ہے۔
ساحلی علاقوں میں مختلف مقامات پرسمندر کا پانی داخل ہو رہا ہے اس کو ہم روک سکتے ہیں وہاں سے یہ پانی دوبارہ زمین میں شامل ہوجاتا ہے ۔
گوادر کے یونین کونسل سربندن کے چیئرمین نصیب نوشیروانی سمجھتے ہیں کہ سطح سمندر میں اضافے کا مسئلہ مقامی آبادی کیلئے مشکلات کا سبب بن رہا ہے۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 25ہزار نفوس پر مشتمل یونین کونسل سربندن میں (Sea Erosion) کی وجہ سے سمندر کا پانی گھروں میں داخل ہو رہا ہے جس سے گھر اور دکانوں کے فرش ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہے ہیں۔
نصیب نوشیروانی کے مطابق سربندن میں کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں پر سمندر کا پانی چشموں کی صورت میں زمین کے اوپر آرہا ہے، اور باتھ روم کیلئے بنائے گئے (Septic Thank) اب ایک مہینے میں بھر جاتے ہیں۔
اس سے علاقے کی گلیاں اور سڑکیں بھی متاثر ہو رہے ہیں۔
نوشیروانی بلوچستان 24 کو بتایا کہ اس ضمن میں لوکل گورنمنٹ کے ممبران کو مذکورہ علاقوں میں معاملات کا جائزہ لینے کیلئے دورے کروائے، “گوکہ لوکل گورنمنٹ کے پاس اختیارات نہیں ہیں مگر ان کے غفلت کی وجہ سے اس میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔
عالمگیر سطح سمندر تین دہائیوں میں ریکارڈ بلندی پر کیوں؟
اندازے کے مطابق 1980 کے بعد سمندروں کی سطح میں 20 تا 23 سینٹی میٹر (8 تا 9 انچ) تک اضافہ ہوا ہے۔
عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) نے بتایا ہے کہ 2023 میں عالمگیر سطح سمندر تین دہائیوں میں ریکارڈ بلندی پر پہنچ گئی تھی۔
سال1993 سے 2002 تک کے عرصہ کو مدنظر رکھا جائے تو گزشتہ 10 سال کے دوران اس بلندی میں دو گنا سے بھی زیادہ اضافہ ہوا۔
اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 90 کروڑ لوگ یا کرہ ارض کی 10 فیصد آبادی سمندری ساحلوں کے قریب رہتی ہے۔
اس صورتحال میں بنگلہ دیش، چین، انڈیا، نیدرلینڈز اور پاکستان جیسے گنجان آباد ممالک میں ساحلی علاقوں پر رہنے والے لوگوں کو تباہ کن سیلابوں کا سامنا ہو گا۔
علاوہ ازیں، بنکاک، بیونس آئرس، لاگوس، لندن، ممبئی، نیویارک اور شنگھائی جیسے بڑے شہر خطرے کی زد میں ہیں۔
سمندر کی سطح میں اضافہ سمندروں میں گرمی بڑھنے اور گلیشیئر و برف کی تہیں پگھلنے کے باعث ہوتا ہے اور یہ تمام صورتحال موسمیاتی تبدیلی سے جنم لیتی ہے۔
اگر عالمی حدت میں اضافہ قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں 1.5 ڈگری سیلسیئس تک محدود رہے تو تب بھی سطح سمندر میں بڑی مقدار میں اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔بحر اوقیانوس میں آبی دھارے (گلف سٹریم) کی حرکت میں تبدیلی بھی مختلف علاقوں میں سطح سمندر کو بڑھا دیتی ہے۔
گرین ہاوس گیسوں کے اخراج پر قابو پا کر عالمی حدت میں اضافے کی رفتار میں کمی کرکے سطح سمندر میں اضافے کو روکاجاسکتاہے ۔