ویب ڈیسک
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج اور پاکستان کے عوام پوری طرح سے متحد اور تیار ہیں، مادر وطن کی سالمیت، تحفظ اور آزادی کی خاطر میں اور میری قوم آخری دم تک لڑیں گے، اگر کوئی سمجھتا ہے کہ پاکستان پر حملہ کرکے یہاں خون بہائیں گے تو پاکستان اس کا بھرپور جواب دے گا،
انسانوں کی تقسیم اور نفرتوں کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے، پاکستان پرامن ملک ہے، پاکستان میں رہنے والی اقلیتیں برابر کی شہری ہیں، نیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح سے عملدرآمد ہو گا، بلاول کے والد کرپشن اور منی لانڈرنگ سے یوٹرن لیتے تو آج مشکل میں نہ ہوتے اور نیب اور عدالتوں کے چکر نہ لگاتے،
بلاول کے والد نے بلاول کو بھی مشکل میں ڈالا ہے، وفاقی حکومت سے صوبہ کی بہتری کیلئے جتنا ہو سکا کریں گے۔
وزیراعظم عمران خان کا جمعہ کو تھرپارکر کے علاقہ چھاچھرو میں صحت انصاف کارڈ تقسیم کرنے کے موقع پر ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، گورنر سندھ عمران اسماعیل اور ارباب غلام رحیم بھی موجود تھے۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ انتخابات کے بعد وہ پہلی بار کسی جلسہ سے خطاب کر رہے ہیں، آج تھرپارکر اس لئے آئے ہیں کیونکہ یہ پاکستان کا سب سے پسماندہ علاقہ ہے، یہاں 70 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں، مناسب خوراک نہ ملنے کی وجہ سے گذشتہ تین چار سالوں میں یہاں 1300 بچے مر چکے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ اقتدار میں آنے کا ان کا سب سے بڑا مقصد لوگوں کو غربت سے نکالنے کیلئے اقدامات اور کوششیں کرنا ہے، تھرپارکر میں غربت کی شرح سب سے زیادہ ہے اس لئے میں نے یہاں آنے کا فیصلہ کیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد بیشتر اختیارات صوبوں کے پاس ہیں لیکن وفاقی حکومت سے جتنا ہو سکے گا وہ ہم کریں گے، انصاف ہیلتھ کارڈ کی تقسیم اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے، آج سے ایک لاکھ 12 ہزار گھرانوں کو یہ کارڈ فراہم کئے جائیں گے، اس کارڈ سے غریب اور پسماندہ لوگوں کو اپنے گھرانے کے علاج معالجہ میں آسانی ہو گی، کارڈ کے تحت فی گھرانہ 7 لاکھ 20 ہزار روپے تک کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ تھرپارکر میں 2 موبائل ہسپتال کام شروع کریں گے، ان موبائل ہسپتالوں میں آپریشن کی سہولت ہو گی جو دور دراز علاقوں میں خدمات سرانجام دیں گے، اس کے علاوہ چار ایمبولینس گاڑیاں بھی فوری طور پر فراہم کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تھر میں کوئلہ کی شکل میں کالا سونا پڑا ہے، جیسے جیسے سونا نکلتا جائے گا تھرپارکر، سندھ اور پاکستان کی تقدیر بدلتی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں جب پسماندہ علاقوں سے معدنیات ملتی تھیں تو پیسہ مقامی لوگوں پر خرچ نہیں ہوتا تھا، اب یہ پالیسی مکمل طور پر تبدیل کی گئی ہے، اب جس علاقہ سے معدنیات ملیں گی اس سے حاصل وسائل مقامی لوگوں پر خرچ ہوں گے کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ غریب لوگوں کو اوپر لایا جائے، تھرپارکر کے عوام پرامید رہیں، کوئلہ سے حاصل وسائل سب سے پہلے مقامی لوگوں پر ہی خرچ ہوں گے۔
وزیراعظم نے تھرپارکر میں پانی کے 100 پلانٹ لگانے کا بھی اعلان کیا اور کہا کہ ریگستانی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے مواقع بہت زیادہ ہیں، 100 پلانٹس کو شمسی توانائی سے بجلی فراہم کی جائے گی۔ اس کے علاوہ شمسی توانائی سے حاصل ہونے والی بجلی مقامی دیہات میں بھی فراہم کی جائے گی۔
وزیراعظم نے کہا کہ سپاسنامہ میں جو بھی مطالبات کئے گئے ہیں ان کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے، سندھ کی حکومت سے بھی کہیں گے کہ وہ مفاد عامہ کے تحت اپنی ذمہ داریاں ادا کرے۔ انہوں نے کہا کہ تھرپارکر آنے کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ یہاں پر آدھی آبادی ہندو برادری کی ہے، بھارت میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اور وہاں اقلیتوں کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ افسوسناک ہے۔ اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ میں بھی کہا گیا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف نفرت اور تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے اور بھارتی حکومت اقلیتوں کو تحفظ فراہم نہیں کر رہی۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہماری حکومت پاکستان میں ہندو برادری اور اقلیتوں کے ساتھ کھڑی ہے، اقلیتوں پر کسی قسم کا ظلم اور تشدد نہیں کرنے دیں گے، قائداعظم محمد علی جناح میرے رول ماڈل ہیں،
قائداعظم محمد علی جناح انسانوں کو تقسیم نہیں کرنا چاہتے تھے، وہ ہندو اور مسلمانوں کو اکٹھا کرکے انگزیر سے آزادی چاہتے تھے لیکن ایک وقت آیا جب انہوں نے دیکھا کہ یہ خدشہ موجود ہے کہ کانگریس جس طرح کا ہندوستان چاہتی ہے وہاں اقلیتیں محفوظ نہیں ہوں گی اور ان کو ان کے حقوق نہیں ملیں گے اس لئے بابائے قوم نے پاکستان کے قیام کیلئے اپنی راہیں الگ کر لیں،
آج ہندوستان میں رہنے والا مسلمان بھی یہ تسلیم کر رہا ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح نے جو اقدامات کئے تھے وہ ٹھیک تھے، پاکستان اسی لئے بنا تھا کہ اقلیتیں محفوظ ہوں اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائیں، پاکستان میں رہنے والی اقلیتیں برابر کی شہری ہیں، ان کو ان کے پورے حقوق ملیں گے اور ان کے ساتھ کسی قسم کا امتیاز نہیں ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ انسانوں کی تقسیم سے ووٹ لینا آسان سیاست ہے، کراچی میں اس لئے تباہی ہوئی کہ ایک آدمی نے اقتدار کیلئے نفرتیں پھیلائیں اور نفرتوں کی بنیاد پر ووٹ لیا، نفرت کی سیاست نہ ہوتی تو آج کراچی دبئی کا مقابلہ کرتا، اس قسم کی سیاست کی وجہ سے کراچی سے تاجر اپنا بزنس چھوڑ کر ملائیشیا، دبئی اور دیگر مقامات پر منتقل ہو گئے، یہ سب اس لئے ہوا کیونکہ ایک آدمی نے نفرت کی بنیاد پر سیاست کی۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں کسی نے پشتون کا نعرہ لگایا، اس کی منزل اقتدار تھی، کسی نے بلوچ کا نعرہ لگایا، اسی طرح بعض لوگوں نے ضرورت پڑنے پر پنجاب میں جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگایا اور کون نہیں جانتا جب سندھ میں کرپشن میں جیل جانے کی نوبت آئی تو سندھ کارڈ کھیلا گیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ نریندر مودی انسانوں کو تقسیم اور نفرتیں پھیلا کر سیاست کرنا چاہتا ہے، اس طرز سیاست کی وجہ سے اس کے اثرات نچلی سطح پر منتقل ہوتے ہیں اور اس کا نتیجہ پلوامہ جیسے واقعات کی شکل میں آتا ہے، پلوامہ حملہ کے بعد مقبوضہ کشمیر کے شہریوں اور بھارت میں رہنے والے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے جو واقعات ہوتے ہیں وہ افسوسناک اور انسانیت کے خلاف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک وقت تھا کہ جب مہاتما گاندھی ہندوستان کے مسلمانوں کے حقوق کیلئے بھوک ہڑتال کرتے اور آج نریندر مودی مسلمانوں اور اقلیتوں پر مظالم ڈھا رہا ہے، نریندر مودی پاکستان کے خلاف نفرت اور جنگ کا ماحول بنا کر انتخابات میں کامیابی چاہتا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہم نبی کریم کے امتی ہیں، نبی کریم رحمت المسلمین نہیں بلکہ رحمت اللعالمین ہیں، ہمارا رب، رب المسلمین نہیں بلکہ رب العالمین ہے، اس لئے ہم انسانوں کو تقسیم کرنے کی بجائے ان کو اکٹھا کرنے پر یقین رکھتے ہیں، ہم وہ نہیں کرتے جو آج ہندوستان میں ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان امن چاہتا ہے، پاکستان کی حکومت نے بھارتی پائلٹ کو رہا کرکے واپس بھیج دیا کیونکہ ہم جنگ نہیں چاہتے، پلوامہ حملہ کے بعد بھی ہمارا موٴقف تھا کہ واقعہ کی تحقیقات میں مدد کیلئے تیار ہیں لیکن کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے، یہ نیا پاکستان ہے، جب وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو اس وقت بھی میں نے کہا تھا کہ برصغیر میں غربت کی شرح زیادہ ہے اس لئے پاکستان اور بھارت کو امن کے قیام اور تجارت و سرمایہ کاری کے مواقع بڑھانے پر توجہ دینی چاہئے لیکن مجھے نہیں پتہ تھا کہ نریندر مودی کا مقصد نفرتیں پھیلا کر ووٹ لینا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ وہ ایک آزاد پاکستان جبکہ ان کے والدین غلام ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے، میرے والدین نے مجھے کبھی بھی یہ بھولنے نہیں دیا تھا کہ میں ایک آزاد اور خوش قسمت شخص ہوں، میں کبھی نہیں بھولا ہوں کہ ملک کی آزادی کیلئے آخری دم تک جدوجہد کرتے رہیں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ٹیپو سلطان ہمارا ہیرو ہے، ہم ایک آزاد قوم ہیں، ٹیپو سلطان نے غلامی کی زندگی کی نسبت آزادی کی موت کو ترجیح دی اس لئے وہ پاکستانیوں کا رول ماڈل ہے۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ اگر ہندوستان یا کوئی سپر پاور سمجھتی ہے کہ ہم غلام ہیں تو واضح کرتے ہیں کہ میں اور میری قوم اپنی آزادی کی خاطر آخری دم تک لڑیں گے، پاکستان کی مسلح افواج اور پاکستان کے عوام پوری طرح تیار ہیں، اگر کوئی سمجھتا ہے کہ پاکستان پر حملہ کرکے یہاں خون بہائیں گے تو پاکستان اس کا بھرپور جواب دے گا۔
وزیراعظم نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت تمام سیاسی جماعتوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ مسلح گروپوں کو پاکستان میں کام کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، دنیا کے کسی بھی ملک میں اس طرح کے گروپوں کو کام کرنے کی اجازت نہیں ہوتی، جب ہماری حکومت آئی تو ہم نے فیصلہ کیا کہ نیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح سے عملدرآمد ہو گا کیونکہ ہم پاکستان کی بہتری چاہتے ہیں تاہم فلاحی کام کرنے والے گروپوں کو کوئی فکر نہیں ہونی چاہئے لیکن یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ پاکستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ملک میں سرمایہ کاری لانا چاہتے ہیں تاکہ لوگوں کو روزگار ملے، ملک میں امن و استحکام ہو۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ سندھ کے لوگوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ گذشتہ انتخابات میں ہم نے اندرون سندھ میں اچھے طریقہ سے مہم نہیں چلائی، کراچی میں ہم نے مہم چلائی تھی اور کراچی میں انقلابی تبدیلی آئی،
آج میں اعلان کر رہا ہوں کہ اندرون سندھ کے تمام اضلاع میں جائیں گے، میں سندھ کے پڑھے لکھے اور عوامی خدمت کے جذبہ سے سرشار افراد کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ ہمارے ساتھ چلیں سندھ میں نیا دور جلد آنے والا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ گذشتہ 10 برسوں میں سندھ میں جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے، سندھ میں 530 ارب روپے خرچ ہوئے، 1500 ارب روپے ترقیاتی بجٹ تھا یہ کہاں چلا گیا عوام اچھی طرح جانتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سندھ کے ایک لیڈر کو جدوجہد کا پتہ نہیں ہے، ایک لیڈر اپنا نام بدل کر لیڈر بنا، اسے پتہ نہیں کہ لیڈر کیسے بنتا ہے، کاغذ کی پرچی سے کوئی لیڈر نہیں بنتا۔ انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو نے اسمبلی میں انگریزی میں تقریر کی، انہیں علم نہیں کہ پاکستان میں بہت کم لوگوں کو انگریزی سمجھ آتی ہے، اسمبلی میں انہوں نے جو انگریزی بولی ہے زیادہ لوگوں خاص کر (ن) لیگ اور جے یو آئی کے لوگوں کو وہ سمجھ نہیں آئی اور اتنے گھبرائے کہ غلط رخ پر نماز پڑھی۔
انہوں نے کہا کہ بلاول نے اپنی تقریر میں یوٹرن کی بات کی، بلاول اگر جدوجہد کرتے تو انہیں پتہ چلتا کہ منزل اور اہداف کے حصول کیلئے لیڈر یوٹرن لیتا ہے، اگر اس کا مطلب بلاول اور ان کے والد سمجھتے تو آج مشکل میں نہ ہوتے، پرویز مشرف نے امریکی دباؤ پر بلاول کے والد کو این آر او دیا،
اس این آر او سے سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں 60 ملین ڈالر ان کے والد کو ملے، سرے محل جس کے بارے میں اسمبلی میں کہا گیا کہ وہ ان کا نہیں ہے وہ بھی حاصل کیا، اگر کرپشن اور منی لانڈرنگ سے یوٹرن لیتے تو آج مشکل میں نہ ہوتے اور نیب اور عدالتوں کے چکر نہ لگاتے، بلاول کے والد نے بلاول کو بھی مشکل میں ڈالا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ وہ مستقبل میں سندھ کے عوام کے پاس آتے رہیں گے اور ہم کوشش کریں گے کہ وفاقی حکومت سے صوبہ کی بہتری کیلئے جتنا ہو سکے وہ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ وفاق کے پاس ساڑھے پانچ ہزار ارب روپے سالانہ ہوتے ہیں، اس میں سالانہ 2 ہزار ارب روپے قرضوں کی قسطوں میں جاتے ہیں، اڑھائی ہزار ارب روپے صوبوں کے پاس چلے جاتے ہیں، اس لئے 600 ارب روپے کے خسارہ سے ہم آغاز کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سرمایہ کاری میں اضافہ، ریونیو بڑھانے اور ٹیکسوں کے دائرہ کار میں اضافہ سے بہتری آئے گی اور جو بھی وسائل پیدا ہوں گے ہم کوشش کریں گے کہ سب سے پہلے تھرپارکر، جنوبی پنجاب اور فاٹا جیسے پسماندہ علاقوں پر صرف کئے جائیں۔