تحریر: محمد عظیم خان کاکڑ
مصری تاریخ میں سلطان الصالح ایوب ایک اہم حکمران گزرا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے دور حکومت میں فرانس کے بادشاہ لوئس نہم نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضے کی منصوبہ بندی شروع کی۔ لوئس نہم کا یہ حملہ ساتویں صلیبی جنگ کے نام سے مشہور ہے۔ صلیبیوں نے حملوں کا آغاز کیا تو ملک الصالح شدید بیمار تھے اور پھر فوت ہوچکے۔
میدان جنگ میں ان کی اہلیہ شجر الدر ان کے ساتھ رہی اور وفات ہوئے تو شجر الدر نے ملک الصالح کی میت قلعے میں چھپا دی اور یہ خبر مخفی رکھی تاکہ سپاہیوں کا حوصلہ نہ ٹوٹے۔ دوسری جانب شجر الدر نے اپنے سوتیلے بیٹے توران شاہ کو بلایا جو اس وقت ریاست میں کہیں اہم منصب پر تھے۔
شجر الدر وہ خاتون ہے جنہوں نے رکن الدین بیبرس کی بھی پرورش کی تھی۔ رکن الدین بیبرس تاریخ اسلام کا اہم باب گزرا ہے۔ انہوں نے ہلاکو خان کو شکست دی۔ رکن الدین بیبرس ہی وہ شخص تھا جس نے خفیہ طور پر حلیہ بدل کر لوئس نہم کے بائیس قلعوں کا حال معلوم کیا۔ شجر الدر ملک الصالح کی باندی تھی جنہیں ملک الصالح نے سلطان بننے سے پہلے خریدا تھا اور پھر باقاعدہ اپنی شریک حیات بنایا۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ جو چالیس سال تک پنجاب پر حکمران رہا۔ ان کا دور حکومت 1801 سے 1839 تک بتایا جاتا ہے۔ رنجیت سنگھ ایک ظالم حکمران تھا اور ان کے مرنے کے بعد ان کا بیٹا کھڑک سنگھ مہاراجہ بنایا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اگلے چند دنوں میں کھڑک سنگھ کے بیٹے نونہال سنگھ نے باپ کو قید کیا اور خود تخت نشین ہوا۔ قید میں ہی کھڑک سنگھ کا انتقال ہوا۔
نونہال سنگھ کے بعد ان کی والدہ چاند کور دو ماہ تک حکمران رہی۔ یوں 1841 میں رنجیت سنگھ کے ایک اور بیٹے شیر سنگھ نے چاند کور سے تخت لیا اور 1843 تک قابض رہے۔ 1843 میں سندھیانوالہ سرداروں اور ڈوگرہ پریوار کو ساتھ ملا کر شیر سنگھ کا خاتمہ کیا اور پنچائیت نے فیصلہ کیا کہ پانچ سال کے بچے دلیپ سنگھ کو مہاراجہ بنایا البتہ دلیپ سنگھ کے ماموں جواہر سنگھ کو وزیراعظم بنایا گیا۔
دلیپ سنگھ رنجیت سنگھ کا چھوٹا بیٹا تھا۔ 1849 میں انگریز پنجاب پر مکمل قابض ہو چکے اور بعدازاں دلیپ سنگھ کو گرفتار کر کے لندن روانہ کیا گیا جبکہ دلیپ سنگھ کی والدہ رانی جنداں جیل کی دیواروں کو پھلانگتے ہوئے روپ بدل کر نیپال چلی گئی۔
انگریز اس طرح قابض ہوئے کہ وزیراعظم اور سپہ سالار دونوں نے غداری کی۔ یہاں تک کہ کوہ نور ہیرا بھی انگریزوں کے حوالے کر دیا اور رنجیت سنگھ کے توپ خانے بھی فرنگیوں کو دے دئے۔ 1861 میں رانی جنداں بیٹے سے ملنے انگلینڈ پہنچ گئی اور 1863 میں وہی فور ہوئی۔ بہرحال رانی جنداں نے جن مشکلات کا سامنا کیا وہ ایک بہادر خاتون بتائی جاتی ہے۔
شمس الدین التتمش جو سلطان قطب الدین ایبک کے ترک غلام تھے۔ ان کی قابلیت سے متاثر ہوکر قطب الدین ایبک نے انھیں اپنا داماد اور پھر بِہار کا صوبیدار بنایا۔ 1211 میں التمش نے قطب الدین کے بیٹے آرام شاہ کو تخت سے اتار دیا اور خود بادشاہ بن گئے۔ انھوں نے تقریباً 35 سال حکومت کی اور رضیہ سلطانہ انہی کی بیٹی تھیں۔ رضیہ سلطانہ کی کل عمر 35 سال بتائی جاتی ہے۔
التمش کے آٹھ بیٹے تھے مگر انہوں نے تلوار بازی، گھڑ سواری کے ساتھ ساتھ رضیہ کو اچھی تعلیم بھی دلوائی۔ تاہم التتمش کے انتقال کے بعد رضیہ کے ایک بھائی رکن الدین فیروز نے تخت پر قبضہ کر لیا اور 7 ماہ تک حکومت کی۔ لیکن رضیہ سلطانہ نے دہلی کے لوگوں کی مدد سے 1236ء میں بھائی کو شکست دے کر تخت حاصل کر لیا۔
کہا جاتا ہے کہ تخت سنبھالنے کے بعد انہوں نے زنانہ لباس پہننا چھوڑ دیا تھا اور مردانہ لباس زیب تن کر کے دربار اور میدان جنگ میں شرکت کرتی تھیں۔ رضیہ کے دوسرے بھائی معز الدین بہرام نے بھٹنڈہ کے ایک صوبیدار ملک التونیہ کے ذریعے بادشاہت پر قبضہ حاصل کر لیا۔ ملک التونیہ بعدازاں بھٹنڈہ کے گورنر بنائے گئے۔
نتیجتا” رضیہ سلطانہ نے بادشاہت حاصل کرنے کے لئے ایک مضبوط شخصیت کی ضرورت محسوس کی اور بھٹنڈہ کے گورنر ملک التونیہ سے شادی کر لی۔ رضیہ سلطانہ نے حملے کی کوشش کی مگر سلطان معز الدین بہرام نے بری شکست دی اور رضیہ و ان کے شوہر کو علاقہ چھوڑنا پڑا جنہیں بعد میں ڈاکوؤں نے قتل کر دیا۔