‘اومُوامُوا’ خلائی مخلوق کا خلائی جہاز ہو سکتا ہے جو زمین کی معلومات حاصل کرنے کے لیے آیا تھا: تحقیق

آپ کو یاد ہو گا کہ گذشتہ سال 19 اکتوبر کو نظامِ شمسی میں ایک لمبوترا مہمان سیارچے کو دریافت کیا گیا تھا جس کا نام ماہرین فلکیات نے ‘اومُوامُوا’ رکھا تھا۔

ایک نئی تحقیق میں عندیہ دیا گیا ہے کہ ستاروں کے درمیان واقع خلا سے نظامِ شمسی میں داخل ہونے والا سیارچہ خلائی مخلوق کا خلائی جہاز ہو سکتا ہے جس کو زمین کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہو۔

اس سیارچے کو 19 اکتوبر کو دریافت کیا گیا تھا اور اس کی رفتار اور زاویے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نظامِ شمسی سے باہر کسی اور ستارے کے نظام سے آیا ہے۔

اس کے بارے میں سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ وہ اب تک معلوم اجرامِ فلکی میں سے سب سے زیادہ لمبوترا ہے۔

یہ تازہ تحقیق امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کے سمتھ سونین سینٹر فار ایسٹرو فزیکس نے کی ہے۔

اس تحقیق میں اس امکان کو ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ لمبوترہ سیارچہ جس کی چوڑائی کے مقابلے پر اس کی لمبائی کم از کم دس گنا زیادہ ہے اور ایک لاکھ 96 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر رہا تھا کسی خلائی مخلوق کا ہو۔

ایسٹرو فزیکل جرنل لیٹرز کو دی گئی اس تحقیق میں تحقیق دانوں کا کہنا ہے ’اومُوامُوا مکمل طور پر فعال خلائی جہاز تھا جس کو زمین کے بارے میں جاننے کے لیے خلائی تہذیب نے بھیجا ہو۔‘

ہارورڈ یونیورسٹی کی یہ تحقیق فلکیات کے سربراہ پروفیسر ایبراہم لوب اور شمیل بیالی نے کی ہے۔ پروفیسر ابھی تک چار کتابیں اور 700 سے زیادہ تحقیقی پیپرز بلیک ہول، کائنات کا مستقبل، خلائی مخلوق کی تلاش اور ستاروں پر لکھ چکے ہیں۔

یہ تازہ تحقیق اس لمبوترے سیارچے کی رفتار کی بنیاد پر لکھا گیا ہے۔

تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ’اس لمبوترے سیارچے کو خلائی مخلوق کی شے سمجھا جائے تو ایک ممکنہ بات یہ ہو سکتی ہے کہ ’اومُوامُوا‘ ستاروں کے درمیان تیر رہا ہے۔

تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اومُوامُوا‘ کی تیز رفتار اور غیر معمولی مدار کا مطلب ہو سکتا ہے کہ یہ اب فعال نہ ہو۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.