صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں اغوا کے بعد قتل ہونے والی 7 سالہ بچی کے واقعے پر احتجاج کرنے والے شہریوں پر پولیس کی فائرنگ کے بعد شہریوں کی جانب سے مزید احتجاج اور توڑ پھوڑ کیا گیا۔
عمرے کی ادائیگی کے بعد جدہ سے اسلام آباد پہنچنے پر کمسن بچی کے والد محمد امین نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ساتھ ظلم ہواہے، پولیس نے کوئی تعاون نہیں کیا لیکن دوستوں نے ہمارا ساتھ دیا اور ہمیں انصاف چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ویڈیو میں ملزمان کی شناخت بھی ہوگئی لیکن پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہ کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ زینب ہونہار بچی تھی، اسے سارے کلمے یاد تھے، مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ مصروف ترین بازار سے وہ کیسے اغوا ہوگئی۔
میڈیا سے گفتگو کے دوران بچی کے والد نے چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف آف آرمی اسٹاف سے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے انصاف دلانے کی اپیل کی۔
اس سے قبل والد کی غیر موجودگی میں پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی ) کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے بچی کی نماز جنازہ پڑھائی تھی، جس میں شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی تھی۔
بعدازاں بچی کی تدفین قصور کے مقامی قبرستان میں کی گئی۔
واضح رہے کہ قصور میں 7 سالہ زینب کو اغوا کرنے کے بعد قتل کردیا گیا تھا جبکہ اس واقعے کے بعد علاقہ مکینوں نے سخت احتجاج کیا اور ڈی پی او آفس پر دھاوا بول دیا۔
اس موقع پر مشتعل مظاہرین کی پولیس سے جھڑپ بھی ہوئی، اس دوران مبینہ طور پر فائرنگ سے 2 افراد ہلاک ہوگئے، جس کے بعد کشیدہ صورتحال کے پیش نظر انتظامیہ نے رینجرز طلب کرلی۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز قصور میں شہباز خان روڈ پر کچرے کے ڈھیر سے بچی کی لاش ملی تھی، جسے مبینہ طور پر زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا۔
بچی کی لاش ملنے کے بعد اسے پوسٹ مارٹم کے لیے ڈسٹرکٹ ہسپتال منتقل کیا گیا تھا، جہاں اس کا پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد لاش کو ورثاء کے حوالے کردیا گیا تھا، تاہم اس حوالے سے رپورٹ میں بچی کے ساتھ مبینہ ریپ کی اطلاعات ہیں۔
دوسری جانب اس واقعے کے بعد قصور کی فضا سوگوار ہے، ورثاء، تاجروں اور وکلاء کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا اور تاجروں نے مکمل طور پر شٹر ڈاؤن کرکے فیروز پور روڈ کو بلاک کردیا جبکہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن (ڈی بی اے) کی جانب سے بدھ کو عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا گیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
اس حوالے سے ابتدائی طور پر پولیس کے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ لگتا ہے کہ بچی کو 4 یا 5 دن پہلے قتل کیا گیا۔
اس واقعے کے حوالے سے ایک سی سی ٹی وی فوٹیج بھی منظر عام پر آئی تھی، جس میں ایک شخص کو بچی کا ہاتھ پکڑ کر لے جاتے ہوئے دیکھا گیا تھا، تاہم پولیس اس واقعے کے ملزمان کو گرفتار کرنے میں ناکام نظر آئی۔
یاد رہے کہ قصور میں بچیوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، ایک سال میں اس طرح کے 11 واقعات رونما ہوچکے ہیں، جن میں زیادتی کا نشانہ بنائی گئی بچیوں کو اغوا کرنے کے بعد ریپ کا نشانہ بنا کر قتل کردیا گیا تھا جبکہ ان تمام بچیوں کی عمریں 5 سے 8 سال کے درمیان تھیں لیکن پولیس ملزمان کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کا نوٹس
وزیر اعلیٰ پنجاب نے قصور میں کمسن بچی سے مبینہ زیادتی اور قتل کا نوٹس لیتے ہوئے ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم دے دیا۔
انہوں نے اس حوالے سے انسپکٹر جنرل ( آئی جی) پنجاب پولیس سے واقعہ کی رپورٹ بھی طلب کرلی ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب نے مقتول بچی کے لواحقین سے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ متاثرہ خاندان کو ہر قیمت پر انصاف فراہم کیا جائے اور وہ اس کیس پر پیش رفت کی ذاتی طور پر نگرانی کریں گے۔