پاکستان کی معاشی صورتحال مستحکم ہوئی، ورلڈ بینک کا اعتراف

0
یہ بھی پڑھیں
1 of 8,652

کراچی: ورلڈ بینک کے پروجیکٹ ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ معاشی اور اقتصادی عدم اطمینان کے باوجود 18-2017 میں پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح نمود میں 5.5 اضافہ ہوا اور آئندہ سال 19-2018 میں یہ اضافہ بڑھ کر 5.8 فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔

دوسری جانب عالمی بینک کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تیزی سے بہتر ہوتی ترقی اور مستقبل کی معاشی حکمت عملی کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں جبکہ تیل کی قدرے بڑھتی ہوئی قیمتوں، سیاسی اور سیکیورٹی خطرات کو منظم انداز میں حل کرنے کی وجہ سے معیشت میں بتدریج بہتری آئی۔

عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر لانگو کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کو ضرورت ہے کہ وہ معیشت کو مزید بہتر کرنے کے لیے اصلاحات کرے اور ناقص پالیسیوں سے دور رہے تاکہ گلوبل مارکیٹ میں مقابلہ کرسکے‘۔

ورلڈ بینک کا ماننا ہے کہ انتخابی عمل کے چلنے سے پاکستان کی مجموعی کھپت اور جی ڈی پی کی شرحِ نمود میں اضافہ ہوا اور اسی کی وجہ سے بینک ترسیلات اور حکومتی اخراجات میں بھی اضافہ ہوا۔

 عالمی بینک کا کہنا تھا کہ پرچون، ٹرانسپورٹ، اسٹوریج اور مواصلات کے ذیلی شعبے اپنا کردار ادا کررہے ہیں جس سے امید ظاہر کی جاسکتی ہے کہ پرائیوٹ سروس سیکٹر 18-2017 میں 5.8 فیصد سے ترقی کر کے 6 فیصد تک پہنچ جائے گا۔

پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبہ کی وجہ سے بجلی کی فراہمی کا نظام بہتر ہوا جس کے باعث صنعتی شعبے نے 17-2016 کے مقابلے میں 7 فیصد اضافہ ہوا، اسی طرح زراعت کے شعبوں میں بھی رواں معاشی سال 2.9 فیصد اضافہ ہوا جو ساڑھے تین سال کی بلند ترین سطح ہے۔

ورلڈ بینک کے مطابق معاشی دباؤ کی وجہ سے پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ میں خسارہ دیکھنے میں آیا تاہم اس کو بروقت معاشی اصلاحاتی پالیسی کے تحت قابو کیا جاسکتا ہے، 18-2017 میں کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ 4 فیصد رہا جو گزشتہ سال 4.1 فیصد تھا۔

 معاشی سال کی پہلی سہ ماہی رپورٹ میں کرکٹ اکاؤنٹ کا خسارہ 3 کھرب 50 ارب ڈالر رہا جو مجموعی طور پر 112 فیصد ہے تاہم پاک چین اقتصادی راہداری اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی وجہ سے خسارے میں کمی ہوئی جس کی وجہ سے کپیٹل اور معیشت اوپر کی جانب گامزن ہوئی اور غیر ملکی کرنسی کے ذخائر میں بھی کمی ہوئی۔

ورلڈ بینک کا کہنا تھا کہ سہ ماہی خسارے میں کمی کی وجہ انتخابی سال کے دوران وسیع پیمانے پر مگر آہستہ رفتار میں ٹیکس وصولی کے اہداف کو حاصل کرنا ہے، اسی طرح کی صورتحال رہی تو 18-2017 میں افراطِ زر کی شرح 6 فیصد تک پہنچ جائے گی۔

عالمی بینک کا کہنا تھا کہ خلیجی ممالک سے 17-2016 کے دوران ترسیلاتِ زر میں 62.6 فیصد اضافہ ہوا۔

ورلڈ بینک کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستانی روپے کی قدر میں استحکام پیدا ہوا جس کی وجہ سے برآمدات میں جولائی تا ستمبر 7 کھرب 2 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا جو مجموعی طور پر 37.1 فیصد بنتا ہے۔

ڈائریکٹر ورلڈ بینک کا یہ بھی کہنا تھا کہ پالیسی ساز عام طور پر مختصر مدت کے لیے رقم پھنسا کر کرنسی کو کمزور کرتے ہیں تاہم اس خامی پر قابو پانے کے بعد معیشت مستحکم ہوئی۔

 انہوں نے کہا کہ اعلیٰ افراطِ زر کھپت کو منفی طور پر متاثر کرسکتا ہے مگر مجموعی طور پر اس کے اثرات معیشت کو متاثر نہیں کریں گے اور یہ اعتدال کے ساتھ مثبت تبدیلی کی جانب جائے گی۔

ورلڈ بینک کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اس وقت ایسی پوزیشن میں ہے کہ کم سے کم ذخائر اور قرض کی شرح کے باوجود بیرونی دھچکوں کو برداشت کرسکتا ہے، اگر پاکستان کو اپنی معیشت کو دیرپا مستحکم کرنا ہے تو وہ طویل المدتی معاشی اصلاحات کریں۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.