ویب ڈیسک
:کوئٹہ
سابق سینیٹر ثناءاللہ بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل کے حل کیلئے سنجیدہ نوعیت کے معاشی سیاسی ،سماجی رابطوں اور بات چیت کی ضرورت ہے
صوبے میں قانون سازی کے فقدان کی وجہ سے ہم اپنے وسائل کی حفاظت کرنے میں ناکام ہیں
بلوچستان کی 86فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے 18لاکھ بچوں کے پاس تعلیمی سہولیات موجود نہیں ہیں
کسی بھی منصوبے میں پلاننگ نظر نہیں آتی ہرسال بجٹ کاپی پیسٹ ہوتا ہے بلوچستان میں گڈگورننس کا فقدان ہے
اگر ہم صوبے کی معدنیات سے فائدہ اٹھانا چاہئیں تو صوبے کو وافر آمدنی حاصل ہوسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہرسال 40ارب روپے لیپس ہوجاتے ہیں
ہماری ترجیح جہاز اور ہیلی کاپٹر خریدنا ہے اور پٹ فیڈر کا گندا پانی کوئٹہ لانے کیلئے فنڈز استعمال کر رہے ہیں جوکہ سراسر پیسے کا ضیاع ہے
بی آر ایس پی کے سی ای او نادر گل بڑیچ نے کہا کہ بلوچستان کے 8اضلاع قلعہ عبداللہ ،ژوب،پشین ، لورالائی ،جھل مگسی ،خضدار ، واشک ،کیچ
پانچ سال کیلئے بلوچستان رورل ڈویلپمنٹ اینڈ کمیونٹی ایمپاورمنٹ پروگرام پروگرام شروع کیا جارہا ہے
یورپی یونین کی جانب سے صوبے کو پانچ سال کے دوران 45ملین یورو فراہم کئے جائیں گے
سابق وفاقی وزیر زبیدہ جلال نے پروگرام شروع کرنے پر یورپی یونین کا شکریہ اداکیا انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی ترقی کیلئے ایسے پروگرام ہونے چاہئے۔