رپورٹ: مرتضیٰ زیب زہری
موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان کو دہائیوں سے غیر معمولی بارشوں اور سیلابی صورتحال کا سامنا ہے، جس کے باعث لوگوں کو بڑے پیمانے پرجانی ومالی نقصانات ہورہے ہیں۔
ان موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ جہاں معمول سے ہٹ کر بے وقت کی تیز بارشیں ہو رہی ہیں 2022میں مون سون کے دوران صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت اندرون بلوچستان شدید بارش ریکارڈ کی گئی، طوفانی بارشوں اورسیلاب کی زدمیں آکر لوگوں کو بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔
نوجوان سماجی کارکن عادل نذیر نے ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے نوجوانوں کے کردار کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ ان کے مطابق، ماحولیاتی بحران کی شدت کو مدنظر رکھتے ہوئے، نوجوانوں کی فعال شراکت داری نہایت ضروری ہے۔
عادل نذیر نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ نوجوانوں کی استعداد کو بڑھانے کے لیے مخصوص تربیتی پروگرامز کا انعقاد کرے۔
انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی بڑھتی ہوئی مشکلات کے پیش نظر، نوجوانوں کو جدید علم اور مہارتوں سے آراستہ کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید تجویز دی کہ تعلیمی نصاب میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے موضوعات کو شامل کیا جائے تاکہ اسکول اور کالج کی سطح پر طلباء کو ماحولیاتی مسائل کے بارے میں آگاہی حاصل ہو سکے۔
اس طرح کے اقدامات سے طلباء کو ماحولیاتی تحفظ کے اقدامات کے لیے ذہنی طور پر تیار کیا جا سکے گا اور وہ مستقبل میں ماحولیاتی چیلنجز کا مؤثر جواب دینے کے قابل ہوں گے۔
عادل نذیر نے اس بات پر بھی زور دیا کہ نوجوانوں کو ماحولیاتی پالیسی سازی میں شامل کیا جائے تاکہ ان کی نئی نسل کی بصیرت اور تجاویز سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔
ان کے مطابق، نوجوانوں کی فعال شراکت داری کے بغیر ماحولیاتی تبدیلیوں کا مؤثر طور پر سامنا کرنا ممکن نہیں۔
یہ اقدامات حکومت اور تعلیمی اداروں کے لیے ایک اہم پیغام ہیں کہ ماحولیاتی بحران کے خلاف جنگ میں نوجوانوں کو شامل کرنا نہایت ضروری ہے۔
اس ضمن میں متعلقہ ادارے بروقت اقدامات کرنے سے قاصر ہیں، جس کا خمیازہ غریب عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔
رواں سال ملک کے دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان میں بھی غیر معمولی طوفانی بارشوں کے باعث کافی جانی و مالی نقصانات ہوئے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق رواں سال اپریل کے مہینے میں بارشوں کا30 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ بلوچستان میں معمول سے 353 فیصد اور خیبر پختونخوا میں 90 فیصدسے زائد بارشیں ہوئیں۔
جبکہ گزشتہ 30 سال کے مقابلے میں رواں برس یکم سے 18 پریل تک ہونے والی بارشیں، اوسط بارش سے 99 فی صد زاید تھیں۔
ماہرین کے مطابق، موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث غیرمعمولی بارشیں ہوئیں، جس سے بلوچستان، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ندلی نالوں میں طغیانی، دریاﺅں میں پانی کے بہاﺅ میں تیزی اور بجلی گرنے کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھا گیا۔
بلوچستان کے عوام 2022ءمیں برسنے والی بارشوں اور سیلابی ریلوں کے نقصانات سے باہر نہیں آئے تھے کہ انہیں ایک بار پھر شدید موسمی حالات سے نبرد آزما ہونا پڑ رہا ہے۔موسم گرما کے ابتدائی ہفتے ٹھنڈے موسم کے سبب بغیر پنکھوں کے گزرے۔
بلوچستان میں سردی اورگرمیوں کے موسم 6ماہ تک محیط ہوتے ہیں، لیکن گزشتہ چند برس سے سردی کے سیزن کاشیڈول کافی متاثرہواہے، گرمیوں میں شدیدگرمی اورسردیوں میںشدید سردی پڑ رہی ہے۔
صوبے میں موسم سرما میں بارشیں نہ ہونے کے برابر تھیں، لیکن مارچ کے پہلے ہفتے میں شروع ہونے والی شدید بارشوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی صورتحال اس قدرشدیدہوگئی ہے کہ سرد علاقوں میں شدید بارشوں کے باعث کسی ممکنہ نقصان سے بچنے کے لیے بلوچستان میںتعلیمی ادارے بند کرنا پڑے۔
دوسری جانب حکومتی ذرائع بتاتے ہیں کہ صوبے میں بارشوں کی غیر معمولی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جارہے ہیں۔ حکام کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی کے باعث بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔
گزشتہ بارشوں اور سیلاب سے صوبے میں1.6 بلین ڈالرز کا نقصان ہوا۔ عالمی برادری نے بحالی سرگرمیوں کے لیے 2.6 بلین ڈالرز کا وعدہ کیا، مگراپنے وعدے پرپورانہیں اترے۔
ایک دہائی قبل تک بلوچستان میں کم بارشیں ہوا کرتی تھیں، جس سے زراعت کا شعبہ بری طرح متاثر ہو رہا تھا، طویل خشک سالی کی وجہ سے باغات اورچراگاہیں خشک ہوجاتے تھے اور مال مویشی مر جاتے تھے، لیکن اب صوبے کے بیشتر اضلاع مسلسل موسلادھار بارشوں کی زد میں ہیں۔
گلوبل وارمنگ، موسمیات اورخطے کی آب وہوامیںرونماہونیوالی تبدیلی کے باعث بارشوں کی شدت میں اضافے اور سیلاب کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں، لیکن ماہرین کی جانب سے بارہا متنبہ کرنے کے باوجود تباہی سے بچاﺅ کیلئے فوری اور موثر اقدامات کا مکمل فقدان ہے۔
ماہرین موسمیات کے مطابق مستقبل میں کچھ خطے خطرناک حد تک گرم ہو سکتے ہیں اور دیگر سمندر کی سطح میں اضافے کی وجہ سے رہنے کے قابل نہیں رہیں گے۔دنیا بھر میں ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کا عمل تیز ہو چکا ہے۔
جس کی وجہ سے بارشوں کی شدّت میں اضافہ ہوا اور بغیر موسم کے بھی بارشیں ہورہی ہیں، جن سے تباہی اور نقصانات کا دورانیہ بڑھ گیا ہے جس سے ملکی معیشت پرمنفی اثرات مرتب ہورہے ہیں، حکومتوں اور انتظامیہ کے لیے یہ امرپریشانی کا باعث ہیں کہ حکومتی بجٹ کا ایک بڑا حصہ سیلاب سے پیدا شدہ نقصانات کے ازالے پر صرف کرنا پڑ رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلی سے مقامی افراد کے روزگار اور زندگی پر بڑے اثرات مرتب ہوں گے، اس سے بلوچستان کا ہر ضلع کسی نہ کسی سنجیدہ مسئلے کا شکار ہے۔
بلوچستان کی آبادی دوردراز علاقوں میں پھیلی ہوئی ہے اوریہاں سہولیات کے فقدان کی وجہ سے چھوٹے سے خطرے کوبڑی آفت میں بدلتے دیرنہیں لگتی، دوسری جانب قدرتی آفات سے نمٹنے کے حوالے سے اقدامات کی شدید کمی ہے۔
ماہرین کے مطابق خشک سالی کے بڑھنے سے خوراک کی پیداوار اور ترسیل براہ راست متاثر ہوتی ہے اور قحط کی صورت میں لوگ دوسرے علاقوں میں ہجرت پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
بلوچستان میں خشک سالی کا دور ہر پانچ سال بعد لوٹ کر آتا ہے، مگر بارشوں کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے جاتے۔
بلوچستان کوقدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے فوری طور پر جدیدٹیکنالوجی سے لیس نظام کی ضرورت ہے، جس میں جس میں خشک سالی، خوراک کی پیداوار اور زیر زمین پانی کی گرتی سطح کو روزانہ کی بنیاد پر ریکارڈ کر کے ایک مکمل طریقہ کارمرتب کیاجائے تاکہ تمام مسائل کابہتر اور پائیدار حل نکالا جا سکے۔