رپورٹ: مرتضیٰ زیب زہری
رواں سال مئی کے مہینے میں بلوچستان ،پنجاب، سندھ، وفاقی دارلحکومت اسلام آباد، خیبر پختونخوامیں درجہ حرارت معمول سے چار سے چھ ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ ریکارڈکی گئی ۔
گرمی کی شدید لہر کے دوران بلوچستان، جنوبی پنجاب اور سندھ کے متعدد اضلاع میں درجہ حرارت 52 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی تجاوز کر گیا۔تفتان، نوکنڈی، دالبندین اورخاران میں درجہ حرارت 52ڈگری سینٹی گریڈتک پہنچ گیا۔
ماہرین کے مطابق درجہ حرارت 32سے 40 ڈگری کے درمیان تک گرمی ہوتو(Heat cramps) اور گرمی کی وجہ سے توانائی میں کمی کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔40 ڈگری سینٹی گریڈسے زیادہ درجہ حرارت کا مطلب خطرہ ہے۔
بہت زیادہ درجہ حرارت میں ہیٹ سٹروک، اورجسمانی اعضاءکے فیلیئر تک کا خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق شدید گرمی کی صورتحال پاکستان اور بعض صحرائی خطوں میں جہاں موسم گرما کا درجہ حرارت پہلے ہی انسانی برداشت کی حد کو چھو رہا ہے، وہاںشدیدگرمی کی صورتحال باعث تشویش ہے۔
گرم ترین خطوں میںگرمی کی شدت میں اضافہ کم عمر کے لوگوں، بزرگوں اور خصوصاًایسے لوگ جن کی قوت مدافعت کمزورہوان کیلئے خطرناک ہے۔
محکمہ موسمیات نے شدید گرمی کی لہر کے بارے میں پہلے سے شہریوں کو خبردار کیا تھا۔ اس ضمن میں نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (NDMA)نے بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی کی ہدایت جاری کر دی تھی۔
این ڈی ایم اے نے ہیٹ ویوو گائڈ لائنز 2024 کے عنوان سے ایک کتابچہ بھی شائع کیا جس میں شدید گرمی کے نقصانات سے بچنے کے لیے سرکاری اور انفرادی سطح پر تدابیر بتائی گئی ہیں۔
عموماًلوگ شدیدگرمی سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں، مگرمتوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے مجبوراًلوگ رزق کی تلاش میں گھروں سے نکل جاتے ہیں۔
میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈی ایچ کیو جعفر آباد ڈاکٹراکبرکھوسہ نے بتایاکہ جعفرآباداورملحقہ علاقوں میں شدید گرمی ہوتی ہے اوراس دوران لوگ اس سے متاثرہوتے ہیں۔
تاہم وہ اپنی استعدادکارکے مطابق لوگوںکوطبی سہولہیات فراہم کررہے ہیں، ڈپٹی کمشنرکے احکامات پر میل وارڈاورفیمیل وارڈمیں ایئرکنڈیشن لگوائے تاہم فیمیل وارڈکی اے سی خراب ہوگئی اوران کے پاس اس کو مرمت کرنے کیلئے فنڈزنہیں ہیں۔
افرادی قوت میںکی وجہ سے ہنگامی صورتحال میںعوام الناس طبی سہولیات فراہم کرنے میں دشواری کاسامناکرناپڑتاہے۔
انہوں نے بتایاکہ جعفرآباداورملحقہ علاقوں میںدرجہ حرارت 50ڈگری سینٹی گریڈتک پہنچ جاتاہے جبکہ انہیں صرف13گھنٹے بجلی فراہم کی جاتی ہے ، ہسپتال میں ضروریات کوپوری کرنے کیلئے سولرسسٹم نصب کیاگیاہے مگراس سے صرف پنکھے چل سکتے ہیںجس کی وجہ سے ہمیں مشکلات درپیش ہیں۔
ایم ایس ڈی ایچ کیوجعفرآباد کے مطابق ہسپتال میںمیڈیکل آفیسرکی16آسامیاں ہیں جبکہ صرف ڈاکٹرزتعینات کئے گئے ہیں اسی طرح ہسپتال میں 5لیڈی میڈیکل آفیسرتعینات ہیں جبکہ 7آسامیاں خالی ہیں ۔
ہسپتال میں اسپیشلسٹ ڈاکٹرکی8آسامیوں میں 7آسامیاں خالی ہیں جبکہ صرف ایک ڈاکٹرتعینات کیاگیاہے جوبروقت طبی خدمات سرانجام دینے کیلئے ناکافی ہے۔
حکومت بلوچستان کی جانب سے ہسپتال کیلئے سالانہ 5کروڑروپے کابجٹ مختص کیاگیاہے اوروہ ایم ایس ڈی کے ذریعے ادویات کی خریداری کرتے ہیں۔
صوبائی حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ ہسپتال میں میڈیکل آفیسراورلیڈی میڈیکل آفیسرکی آسامیوں پرجلدتعیناتیاں کی جائیں تاکہ لوگوں کوبلاتعطل سروسزکی فراہمی کویقینی بنایاجاسکے۔
بڑھتی ہوئی آبادی کیساتھ انسان دشمن سرگرمیوں کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیاں رونماہورہے ہیں ۔موسمیاتی تبدیلی صرف پاکستان نہیں بلکہ پوری دنیااس کاسامناکررہی ہے۔مکہ المکرمہ میں شدید گرمی کے باعث 557 سے زائد عازمین حج جاں بحق ہوگئے۔
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں شدید گرمی کا 6 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا، جبکہ بنگلہ دیش میں ہیٹ ویو کی وجہ سے کئی لوگ لقمہ اجل بن گئے۔
رواں سال پاکستان میں بھی شدیدترین گرمی کی لہرجاری رہاجس سے لوگوںکوشدیدمشکلات کاسامناکرناپڑا۔
طبی ماہرڈاکٹرصبورکاکڑبتاتے ہیںاکثرگنجان آبادعلاقوں میں ہیٹ ویوزکی وجہ سے زیادہ لوگ متاثرہوتے ہیں ، بلوچستان میں کوئٹہ کے علاوہ کہیں پہ بھی آبادی گنجان نہیں ہے اس لیے بلوچستان میں ہیٹ ویوزکے کیسز دیگرصوبوں کی نسبت کم تعداد میں آتے ہیں ۔
ڈاکٹرصبورکے بقول ایک محتاط اندازے کے مطابق بلوچستان میںسالانہ 300 سے ایک ہزارہیٹ ویوزکے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں جن کی تعداد مستقل نہیں رہتی اس میں کمی بیشی آتی رہتی ہے۔
انہوں نے بتایاکہ شدیدگرمی کے موسم میںہیٹ ویوزکے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔انسانی جسم میں پانی کی کمی اس کی سب سے عام علامت ہے، پیاس لگنا، تھکاوٹ، پٹھوں میں کھنچاو ¿، بدن میںدردمحسوس کرنا، چکر آنا، الجھن اور گہرے رنگ کا پیشاب آنا بھی ہیٹ ویوزکی علامات میںشامل ہے ۔
انہوں نے ایک نئی تحقیق کاحوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ہیٹ ویو سے حاملہ خواتین پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور بچوں کی قبل از وقت پیدائش کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
جرنل جاما نیٹ ورک اوپن میں شائع تحقیق میں ئ1993 سےئ2017 کے دوران امریکا میں بچوں کو جنم دینے والی 5 کروڑ 30 لاکھ خواتین کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اگر ہیٹ ویو کے ایک کیس کا دورانیہ مسلسل 4 دن تک برقرار رہتا ہے تو بچوں کی قبل از وقت پیدائش کا امکان ایک سے 2 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔
انہوں نے بتایاکہ انتہائی سخت گرم موسم میں خصوصی طور پر زائد العمر افراد، بچوں اور خواتین کو فالج لاحق ہوسکتا ہے۔
ہیٹ ویو سے بچاو ¿ کے لیے کیاتدابیر اختیار کرنی چاہئیں
ہیٹ ویوسے متاثرہ شخس کوزیادہ سے زیادہ پانی پلائیں، جسم میں نمکیات کی کمی پوری کرنے کے لیے او آر ایس اور لیموں ملا پانی پلائیں۔ چوں کہ پانی جسم کے درجہ حرارت کو معمول پر رکھتا ہے، تو عمومی طور پر بھی گرمیوں میں زیادہ سے زیادہ پانی پینا چاہئے تاکہ ہیٹ ویواورلولگنے کے خدشات سے محفوظ رہ سکیں۔
شدید گرمی کے موسم میں دن کے اس اوقات میں سورج کی تپش زیادہ ہوتی ہے اس وقت باہر نکلنے کا معمول کم سے کم رکھیں اورخصوصاًدوپہر 12 بجے سے شام چار بجے تک دھوپ میں گھومنے سے پرہیز کریں، کسی ضروری کام کے سلسلے میں اگرباہرجاناہواتو سر پہ کوئی کپڑا ڈھانپ کے رکھیں، ہلکے رنگ کے کپڑے پہنیں، پانی اور ٹھنڈے مشروبات کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں اور علامات ظاہر ہونے کی صورت میں فورا ڈاکٹر سے رجوع کریں۔