نمائندہ خصوصی
بلوچستان کی 45سالہ پارلیمانی تاریخ میں صرف ایک وزیراعلیٰ جام محمدیوسف(مرحوم) نے آئینی مدت پوری کی بلکہ 4مرتبہ بلوچستان میں گورنرراج کانفاذکیاگیا۔تفصیلات کے مطابق بلوچستان کی 45سالہ پارلیمانی تاریخ میں صرف ایک وزیراعلیٰ پاکستان مسلم لیگ(ق) کے جام محمدیوسف (مرحوم)نے اپنی آئینی مدت پوری کرلی ہے جس نے 4سال 11ماہ اور18دن حکومت کی۔ جبکہ اس 45سالہ پارلیمانی سیاست میں 4وزرائے اعلیٰ کو گورنر راج کا نفاذ کرکے گھر بھیج دیاگیا جن وزرائے اعلیٰ کے ادوار حکومت گورنر راج کے نفاذ کے ذریعے ختم کی گئی ان میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ)کے سردارعطاء اللہ مینگل،پاکستان پیپلزپارٹی کے جام غلام قادر خان،میر جان محمدجمالی اور پاکستان پاکستان پیپلزپارٹی کے نواب محمد اسلم رئیسانی شامل ہیں۔نیشنل عوامی پارٹی کے سردارعطاء اللہ مینگل کادور حکومت یکم مئی 1972ء سے 13فروری 1973ء تک رہا جس سے گورنرراج نافذ کئے جانے کے بعد ختم کیاگیا،گورنرراج کا نفاذ27اپریل 1973ء تک رہا اس کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی کے جام غلام قادر خان کی پہلی مرتبہ حکومت27اپریل 1973ء سے 31دسمبر1974ء تک رہی جس سے31دسمبر 1975ء کو گورنر راج نافذ ختم کردیاگیا گورنرراج کانفاذ6دسمبر1976ء تک رہا،اس کے بعد میر جان محمدجمالی کی دور حکومت کادورانیہ 13اگست1998ء سے لیکر12اکتوبر1999ء تک رہا وہ تیسرے وزیراعلیٰ بلوچستان تھے جس کی حکومت کو 12اکتوبر1999ء کو گورنرراج نافذ کرکے ختم کردیاگیا،گورنرراج کانفاذ یکم دسمبر2002تک رہا۔جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے نواب محمد اسلم رئیسانی160 آخری وزیراعلیٰ تھے جن کی حکومت کا دورانیہ9اپریل 2008ء سے لیکر14جنوری 2013ء تک رہا ان کی حکومت کو امن وامان کی مخدوش صورتحال کے پیش نظر گورنرراج نافذ کرکے ختم کردیاگیاگورنررا?ج کا نفاذ14جنوری 2013ء سے لیکر13مارچ 2013ء تک رہا۔
160بلوچستان میں یکم مئی1972ء کو سردارعطاء اللہ مینگل پہلے جبکہ 9جنوری2018ء کو نواب ثناء اللہ زہری 15وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز رہے۔تفصیلات کے مطابق نیشنل عوامی پارٹی (نیپ)کے سردارعطاء اللہ مینگل یکم مئی 1972ء سے 13فروری 1973ء تک وزارت اعلیٰ کے عہدے پر فائز رہے جس کے بعد13فروری1973ء کو گورنرراج نافذ کردیاگیا جو 27اپریل 1973ء تک نافذ العمل رہا،پاکستان پیپلزپارٹی کے جام غلام قادر خان پہلی مرتبہ 27اپریل 1973ء سے 31دسمبر1974ء تک وزیراعلیٰ بلوچستان رہے۔جس کے بعد31دسمبر 1975ء کو گورنر راج نافذ کردیاگیا جو 6دسمبر1976ء تک نافذ رہا،اس کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی کے محمدخان باروزئی 7دسمبر 1976ء سے لیکر5جولائی 1977ء تک وزیراعلیٰ بلوچستان رہے۔جبکہ رحیم الدین 5جولائی 1977ء سے لیکر6اپریل1985ء تک،آزاد امیدوار جام غلام قادر خان دوسری مرتبہ 6اپریل 1985سے لیکر29مئی 1988تک وزارت اعلیٰ کے عہدے پر فائز رہے اسلامی جمہوری اتحاد کے میر ظفراللہ خان جمالی پہلی مرتبہ 24جون 1988ء سے لیکر 24دسمبر 1988ء تک وزیراعلیٰ بلوچستان رہے۔جسٹس خدابخش مری قائم مقام وزیراعلیٰ کے طورپر24دسمبر1988ء سے 5فروری 1989ء تک وزارت اعلیٰ کے عہدے پر فائز رہے۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے نواب اکبر خان بگٹی 5فروری 1989ء سے لیکر7اگست تک وزیراعلیٰ بلوچستان،ہمایوں خان مری نگران وزیراعلیٰ کے طورپر7اگست1990ء سے لیکر17نومبر1990ء تک،اسلامی جمہوری اتحاد کے تاج محمد جمالی مرحوم 17نومبر1990ء سے لیکر22مئی 1993ء تک،آزاد امیدوار ذوالفقار علی مگسی پہلی مرتبہ 30مئی 1993ء سے لیکر 19جولائی 1993ء تک،محمدنصیر مینگل نگران وزیراعلیٰ کے طورپ ر 19جولائی 1993ء سے لیکر20اکتوبر 1993ء تک،ذوالفقار علی مگسی دوسری مرتبہ 20اکتوبر1993ء سے لیکر9نومبر1996ء تک،میر ظفراللہ جمالی دوسری مرتبہ نگران وزیراعلیٰ کے طور پر 9نومبر1996ء سے لیکر22فروری 1997تک،بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سرداراخترجان مینگل 22فروری 1997ء سے لیکر29جولائی 1998ء تک،میر جان محمدجمالی 13اگست1998ء سے لیکر12اکتوبر1999ء تک وزیراعلیٰ بلوچستان رہا جس کے بعدگورنر راج نافذ کردیاگیا جو 12اکتوبر1999ء سے لیکریکم دسمبر2002تک نافذ رہا جس کے بعد پاکستان مسلم لیگ(ق) کے جام محمدیوسف یکم دسمبر2002ء سے لیکر19نومبر2007ء تک،محمدصالح بھوتانی نگران وزیراعلیٰ کے طورپر19نومبر2007ء سے لیکر 8اپریل 2008ء تک،پاکستان پیپلزپارٹی کے نواب محمداسلم رئیسانی 9اپریل 2008ء سے لیکر14جنوری 2013ء تک وزیراعلیٰ بلوچستان رہے جس کے بعد گورنر راج نافذ کردیاگیا جو 14جنوری 2013ء سے لیکر13مارچ2013ء تک نافذ العمل رہا،جس کے بعد نواب محمداسلم رئیسانی 13مارچ 2013ء سے لیکر7جون 2013ء تک وزارت اعلیٰ کے عہدے پر فائزرہا عام انتخابات 2013 کے بعد نیشنل پارٹی کے ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ 7جون 2013ء سے لیکر23دسمبر2015ء جبکہ 24دسمبر سے لیکر9جنوری 2018ء تک پاکستان مسلم لیگ(ن) کے نواب ثناء اللہ زہری اس عہدے پر فائز رہے۔
160بلوچستان میں ماہ جنوری میں نواب ثناء اللہ زہری وزارت اعلیٰ کا عہدہ چھوڑنے والے دوسرے وزیراعلیٰ بند گئے۔اس سے قبل 13جنوری 2013ء کو صوبے میں امن وامان کی خراب صورت کے باعث سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم رئیسانی کو ہٹا کر صوبے میں گورنرراج کا نفاذ کردیاتھا جبکہ 9جنوری 2018ء کو سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کرانے کے بعداسمبلی اجلاس والے دن یہ کہہ کر استعفیٰ دیاکہ انہیں محسوس ہورہاہے کہ کافی تعداد میں اسمبلی اراکین ان کی قیادت سے مطمئن نہیں اس لئے وہ وزارت اعلیٰ کے منصب سے مستعفی ہورہے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ زبردستی اپنے ساتھیوں پر مسلط ہو،اقتدار آنے جانے والی چیز ہے مخلوط حکومت کو چلاناکوئی آسان بات نہیں،صوبے میں سیاسی عمل کو جاری رہناچاہیے عوام نے مناسب سمجھا تو یہ ان کی خدمت جاری رکھیں گے وہ ان کی خدمت جاری رکھیں گے۔سابق وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کا شکریہ ادا کیا اورکہاکہ میں ان کا بھرپور ساتھ دینے پر ان کا مشکورہوں،تمام اراکین اسمبلی کے ساتھ دوستی کا رشتہ تھا اور ہمیشہ قائم رہے گا کسی سے کوئی گلہ نہیں،عمر میں چھوٹے اراکین اسمبلی پر دست شفقت رکھا جبکہ دیگر کو اپنے بھائیوں کی طرح سمجھا ہم عوامی لوگ ہے اور عوام کے پاس پھر جائینگے وزیراعلیٰ بلوچستان کی کرسی میرے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھتی،چیف آف جھالاوان ہونا میرے لئے زیادہ اہمیت کاحامل ہے،نواب ثناء اللہ زہری کی جانب سے استعفیٰ دینے اور گورنربلوچستان کی جانب سے اس سے منظورکرلینے کے بعد محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی نے گورنربلوچستان کی ہدایت پروزیراعلیٰ بلوچستان اور ان کے کابینہ میں شامل وزراء اور مشیروں سمیتدیگر کے آفسز کو فوری طور پر سیز کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔