تعلیمی ادارے، تربیت کا مرکز یا مذہبیت کا؟

سعدیہ مظہر

“میں نے پہلا قدم سکول میں بہت ڈرتے ہوئے رکھا۔ جہاں بظاہر نیا ماحول اور نئے لوگ تھے۔ مگر یہ ڈر اس وقت تکلیف میں بدل گیا جب ان کی رنگت اور مذہب کی بنا پر ان سے تحقیر آمیز رویہ اپنایا گیا اور ان کی گہری رنگت کا مذاق اڑایا گیا۔” یہاں سے سکینہ کی کہانی شروع ہوتی ہے جو 1987 میں گورنمنٹ گرلز سکول میں بطور استانی بھرتی ہوئیں۔

سکینہ چک 82/6 آر کی رہنے والی ہیں اور اس وقت فراغت کی زندگی گزار رہی ہیں۔ انہوں نے اپنے ماضی کے کچھ تکلیف دہ اوراق پلٹے جس دوران ان آنکھوں میں چمکتے پانی کے قطروں نے درد کی شدت کو غیر محسوس طریقے سے بیان کر دیا۔

سکینہ کہتی ہیں کہ وقت بہت بڑا مرہم بھی ہے اوروقت ہی سب سے بہترین سبق بھی سکھاتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ وقت نے انہیں مضبوط کیا اور اگے بڑھنے کا حوصلہ بھی دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ قابلیت وقت نے سکھائی کہ جس سکول میں مجھ سے ایک گلاس تک نہیں بانٹا جاتا تھا بعد میں اسی ادارے کی سربراہ بھی رہی۔

اس کی وجہ میری اہلیت اور قابلیت کے ساتھ میری برداشت کا نتیجہ تھا۔

سکینہ کو یقین ہے کہ اس معاشرے سے مذہبی امتیاز کو معیاری تعلیم ہی ختم کر سکتی ہے۔

ان کا ماننا ہے کہ مسیحی برادری کے ساتھ اہک مخصوص کام کو وابستہ کرنے کی ایک بڑی وجہ ان کی تعلیمی قابلیت کا نہ ہونا ہے۔

پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے لیے تعلیمی اداروں میں مخصوص کوٹہ انہیں نوکری کے حصول میں مدد تو فراہم کرتا ہے مگر معاشرتی رویوں کی سخت دھوپ انہیں اس سائے کی ٹھنڈک بھی محسوس نہیں ہونے دیتی۔ تاہم پاکستان میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے بڑھتے ہوئے رحجان نے مسیحی برادری کے اس مسلے کو کافی حد تک حل کر دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں
1 of 8,919

تمام پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں میوزک کلاسز کا اجرا بھی مسیحی فنکاروں کے لیے روزگار کا بہترین ذریعہ بنا ہے۔

شہزاد صدیقی بھی ساہیوال کے کالج چوک میں واقع ایک پرائیویٹ سکول میں پچھلے دو سال سے میوزک ٹیچر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے “زندگی میں جو بھی کام کیا جائے، مشکلات کا سامنا ہوتا ہی ہے اور میں نے شائد یہ مشکل اپنے مسیح ہونے کی وجہ سے دیکھی”۔

48 سالہ شہزاد سکول کے ساتھ ساتھ چرچ میں عبادات کے دوران ہارمونیم بجانے کے علاوہ مختلف تقریبات میں گاتے بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ موسیقی اور ردھم انہوں نے ماں کی گود میں سیکھا ہے۔ ان کی والدہ روزانہ صبح ہارمونیم بجا کر اپنی عبادت سے دن کا آغاز کیا کرتی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میرے طلبہ کے لیے میں صرف ان کا استاد ہوں، مجھ سے کبھی کسی نے میرے مذہب کے حوالے سے بات نہیں کی اور نہ ہی میں نے کبھی اپنے مذہب کو اپنے عقائد پر ہاوی ہونے دیا۔

ہم سکول میں دعائیں بھی پڑھتے ہیں اور اسلامی حمد و ثنا بھی بچوں کو پڑھاتے ہیں۔
شہزاد سمجھتے ہیں کہ تنقید کرنے والے صرف وجہ ڈھونڈتے ہیں اور مذہب تنقید، تضحیک اور تنازعہ کھڑا کرنے کیلئے ایک آسان وجہ ہے۔ تاہم ان چیزوں کا مقابلہ مضبوطی سے کیا جائے تو آپ کی شخصیت نکھرتی ہے اور آپ پر تنقید کرنے والے آپ کے تابع ہو جاتے ہیں۔ شہزاد گلہ کرتے ہیں کہ وقت بدلا، دنیا سمٹ کر موبائل میں سما گئی مگر ہمارے معاشرے میں میوزک کے ساتھ وابستہ چند جملے یا ٹیگ لائنز نہیں بدلیں۔

سکینہ اور شہزاد کی طرح کرسٹوفر جلال بھی ایک سرکاری تعلیمی ادارے گورنمنٹ گرلز ایلیمنٹری کالج کی انتظامیہ میں ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ قدرت نے انہیں اچھے سر اور ساز کے ساتھ نوازا ہے اور وہ کالج کے اوقات کے بعد چرچ اور مختلف محافل میں گائیگی کے ذریعے اس ہنر سے عوام کو لطف اندوز کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ میں خود کو خوش قسمت سمجھتا یوں کہ ایک جانب تعلیمی ادارے سے وابستگی ہے اور دوسری جانب ساز سے انسیت ہے۔ کرسٹوفر نے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ “لوگ ہمیں چوڑا کہا کرتے تھے کیونکہ مسیحی صرف صفائی ستھرائی ہی کا کام کرتے رہے ہیں، ان کے مطابق اس کی بڑی وجہ کرسچن کمیونٹی کا تعلیم یافتہ نہ ہونا ہے ۔ اسی لیے جب ہم جیسے کچھ لوگ اچھے عہدوں پر بیٹھ جاتے ہیں تو لوگ انہیں حیرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ کبھی کبھار مذہبی تعصب کی بنیاد پر دھیمی آواز طعنہ بھی دے جاتے ہیں۔

کرسڑوفر کا کہنا ہے کہ وہ پیانو بجاتے ہیں اور محفل میں پیانو کی خوبصورت دھن اور کرسٹوفر کی انگلیوں کی تیزی سے ماحول پرسوز ہو جاتا ہے۔

کرسٹوفر کہتے ہیں کہ وہ کبھی بھی شادیوں کی تقریبات میں پرفارم نہیں کرتے کیونکہ وہاں ان کے ساتھ دوسرے درجے کے شہری کی طرح برتاو کیا جاتا ہے جو ان کیلئے تکلیف دہ ہوتا ہے۔

56 سالہ کرسٹوفر جلد ریٹائرڈ ہونے والے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کا کالج ان کے گھر کی طرح ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مذہب کبھی انکے اور طلبا اور سٹاف کے درمیان حائل نہیں ہوا۔

وہ کہتے ہیں کہ انہیں طلبا سے ہمیشہ عزت واحترام ملا اورسٹاف میں کبھی مذہبی تقریق نہیں پائی۔

تاہم یہ کانٹے ان کی شوق موسیقی ضرور حائل ہوتے رہے ہیں۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.