تحریر: مرتضیٰ زیب زہری
جسے جینے کا سلیقہ آتا ہو، وہ تین سو میں بھی خوشی کے رنگ بکھیر لیتا ہے۔
گزشتہ رات افطار کے بعد ایک ہوٹل میں چائے کی چسکیاں لے رہا تھا۔ چائے کے بغیر تو زندگی جیسے ادھوری لگتی ہے! ہوٹل میں رش تھا، دوستوں کی گپ شپ اور قہقہوں کے شور میں کان پڑی آواز بھی سنائی نہ دیتی تھی۔
اسی ہنگامے میں دو مزدور تھکن سے چور، تھکاوٹ کا مداوا کرنے میرے قریب آ بیٹھے۔ باتوں ہی باتوں میں ایک نے دوسرے سے کہا، “یار، کئی دن سے مزدوری نہیں ملی۔ حالات بہت مشکل ہو گئے ہیں۔”
دوسرے نے فوراً اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا، “مزدوری تو نہیں ملی، مگر ایک پکوڑے والے نے رمضان میں کام پر رکھ لیا ہے۔”
شور شرابے کے باوجود میں ان کی بات سننے میں کامیاب رہا۔ وہ بتا رہے تھے، “پکوڑے والا روزانہ تین سو روپے اجرت دیتا ہے اور ساتھ کھانے کے لیے پکوڑے بھی مل جاتے ہیں۔ اس سے زیادہ اور کیا چاہیے! اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔”
یہ سن کر احساس ہوا کہ اس مہنگائی اور نفسا نفسی کے دور میں بھی ایسے لوگ ہیں جو قناعت اور شکر گزاری کے ساتھ جیتے ہیں، معمولی خوشیوں میں مسکراتے ہیں اور اپنے حال میں خوش ہیں۔
دوسری طرف وہ جاگیردار اور سرمایہ دار ہیں، جو اربوں، کھربوں کے مالک ہونے کے باوجود بے سکون زندگی گزار رہے ہیں، عجیب و غریب بیماریوں میں مبتلا ہیں، غم و فکر میں الجھے ہوئے ہیں۔ شاید ان کا مال بھی درحقیقت ان ضرورت مندوں کی امانت ہے، جس میں ہم سب خیانت کر رہے ہیں۔
رمضان کے اس بابرکت مہینے میں اپنے اردگرد نظر دوڑائیں، ہمیں ایسے بے شمار سفید پوش لوگ ملیں گے جو اپنی خاموشی میں صبر کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں۔ آئیے! ان کی مدد کریں، بنا دکھاوے، بنا کسی غرض کے۔
اللہ ہم سب کو نیکی کرنے اور دوسروں کی خوشیوں کا وسیلہ بننے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!