کوئٹہ :ویب رپورٹر
بلوچستان میں تنظیم اساتذہ صدر پروفیسر عبدالرحمان موسیٰ خیل نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ اردو کو دفتری اور سرکاری زبان قرارد دینے کے متعلق واضح حکم جاری کرچکی ہیں
بلوچستان بھر میں صرف دس فیصدلوگ انگریزی بول اور سمجھ سکتے ہیں جبکہ نوے فیصد افراد اردو بول اور سمجھ سکتے ہیں مگر اس کے باوجود عوام پر انگریزی زبان مسلط ہے حکومت کو چاہئے کہ اردو کے نفاذ میں سستی برتنے اور توہین عدالت کے ارتکاب کرنے کے بجائے قومی زبان اردو فوری طورپر بلوچستان بھر میں نافذ العمل قرار دے
انہوں نے کہا کہ 8 ستمبر 2015 ءکے دن سپریم کورٹ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل تین رکنی بنچ نے نفاذ اردو کا تاریخی فیصلہ سنایا تھا جوسپریم کورٹ کا آئین پاکستان آرٹیکل 251 پر عمل درآمد اور نفاذ اردو کا فیصلہ سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے ۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے اساتذہ کے مختلف وفود سے بات چیت کرتے ہوئے کیا ۔
پروفیسر عبدالرحمٰن موسیٰ خیل نے کہا کہ صوبائی حکومت تعلیمی اداروں ، دفاتر اور پبلک سروس کمیشن میں سپریم کورٹ کے اردو زبان کے فیصلے پر عمل درآمد کر ے کیونکہ محض انگلش کی بنیاد پر کئی دیانتدار اور باصلاحیت نوجوان ملازمتوں سے محروم رہ جاتے ہیں اور ایک خاص استحصالی طبقہ اس راہ میں رکاوٹ ہے اس لیے ناگزیر ہے کہ اردو دفتری ، تعلیمی و عدالتی زبان قرار دیا جائے
انہوں نے کہا کہ اردو ہماری قومی زبان ہے اسے کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اردو زبان سے قومی یکجہتی کو فروغ اور شرح خواندگی بڑھانے میں مدد ملے گی انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ اور چیف سیکرٹری اردو کو فوری طورپر صوبے میں نافذ العمل قرار دے اور تعلیمی اداروں ، سرکاری دفاتر و عدالتوں میں لکھنے اوربولنے میں اردو کو بطور قومی زبان استعمال کیاجائے تاکہ عام شہریوں کو آسانی میسر آئے ۔