رپورٹ ۔۔۔۔کریم ،کیمرہ مین ناصر ساحل بلوچستان میں بلدیاتی اداروں کی مدت اٹھائیس جنوری کو ختم ہورہی ہے
میئر کوئٹہ ڈاکٹر کلیم خان نے ایک پریس کانفرنس میں بلدیاتی اداروں کی مدت میں مارچ تک اضافہ کرنے کا مطالبہ کیا تھا
’’ انہوں نے الزام بھی لگایا کہ حکومت نے بلدیاتی اداروں کو اختیارات منتقل نہیں کئے ‘‘
بلدیاتی اداروں کی چارسالہ کارکردگی کیا رہی اس بارے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رہنما سکینہ مینگل کا کہنا تھا ” ہم نے چار سالہ دور میں کچھ اچھے کام کئے لیکن اس حد تک کام نہیں ہوا جو ہونا چاہیے تھے، ہمارا نظام شروع سے صحیح نہیں جس کی وجہ سے ہم بہتر کام نہیں کرسکے اور دوسری طرف موجودہ صوبائی حکومت میں ترقیاتی کام با لکل بند ہیں”
بنیادی طور پر بلدیاتی اداروں سے شہریوں کا واسطہ ہوتا ہے کوئٹہ شہر میں چار سال قبل جو نظام وجود میں آیا ہیاس نے وہ کام نہیں کیاجو عوام نے ان پر اعتماد اور بھروسہ کیا تھا ان پر وہ پورا نہیں اترے ان کا مزید کہنا تھا” کوئٹہ میں گیس ، پانی، سڑکیں، رش تجاوزات اور صفائی کا مسئلہ ہے ، یاد رہے کوئٹہ ایک وقت صفائی کے لحاظ چھوٹا لندن ہوا کرتا تھا، لیکن اب کوئٹہ پیچھے کی طرف جارہی ہے.
وسائل خرچ ہورہے لیکن عوام کو محسوس نہیں ہورہاہے کہ ان کے وسائل کہاں خرچ ہورہے ہیں عوام کو سوچنا چاہیے اور جذبات سے ہٹ کر وہ ان لوگوں کومنتخب کریں جو ان کے مسائل کو اپنے مسائل سمجھیں اور انہیں حل کریں “
بلدیاتی نظام میں اصلاحات کے بارے میں عبدالقیوم کا کہنا تھا کہ” جو بھی حکومت آتی ہے وہ اپنی منشا کے تحت بلدیاتی نظام لاتا ہے جب سے میں نے ہوش سنبھالا دو سے تین نظام لائے گئے لیکن کوئٹہ شہر پر کوئی فرق نہیں پڑا ہے فرق اس وقت پڑے گا جب دیانتدار قیادت آئیگی جو مسائل کا ادارک رکھتا ہو جو عوام کا غم اپنا غم سمجھتا ہوں ، کوئٹہ ہم سب کا مشترکہ گھر ہے اس گھر کو خوشحال اور ترقی یافتہ دیکھنا ہوں تو اس کیلئے امانت، دیانت اور خدا ترسی کی ضرورت ہے اگر اس بنیاد پر ووٹ استعمال کریں گے تو ہمارا شہر ترقی کریگا اگر حادثاتی طور پر ہم ووٹ استعمال کریں گئے تو شہر کی ترقی ناممکن ہے.
سابق کونسل میر ظفر قمبرانی نے موجودہ بلدیاتی اداروں کا جو دور گزرا ہے یہ دور سب سے بدترین دور رہا ہے
سابق کونسلر میر ظفر قمبرانی کا مزید کہنا تھا” اس سے پہلے بلدیاتی اداروں کا کام کچھ نہ کچھ نظر آتا تھا جب میں سن ستاسی میں کونسلر تھا تو اس وقت ساٹھ ہزار فنڈ ہوا کرتا تھا اب تو کروڑں میں فنڈ ہے، اسی طرح صفائی کے مد میں کروڑوں کا فنڈملتا ہے لیکن صفائی کی صورتحال ابتر ہے یہاں تک کہ ہمارے دورے میں آوارہ کتے مارنے کیلئے کتا مار مہم اور مچھرمار اسپرے کیا جاتا تھا اب یہ بھی نہیں ہورہا “
کوئٹہ کے شہری گل محمد کا کہنا تھا کہ ” بلدیاتی نظام کو چار سال ہوئے لیکن اطمینان کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے، چھوٹے موٹے کام ہوئے لیکن ترقی کے نام پر جتنے فنڈز کا اجراء ہوا ہے ان میں سے پانچ فیصد ترقیاتی کام بھی نہیں ہوا ہے، پتہ نہیں پیسے کہاں جارہے ہیں ویسے دعوے تو کیے جارہے کہ بلدیاتی نظام کے بیش بہا فوائد ہیں لیکن بظاہر ہمیں میدان میں اس کے فائدے نظر نہیں آرہے ہیں.
کوئٹہ کے شہری اسحاق عزیزنے کہا کہ بلدیاتی نظام سے ہماری جو امیدیں وابسطہ تھیں کہ نچلے طبقے کو فائدہ ہوگا صرف خوشنما باتیں کی گئیں بلدیاتی نظام سے کوئٹہ میں جو تھوڑی بہت تبدیلی آئی وہ بھی آٹے میں نمک کے برابر ہے شہر کے مضافات میں کوئی کام نہیں کیا گیا ہے اور نہ وہاں کوئی تبدیلی رنما ہوئی ہے “ اسحاق عزیز نے نیب سے گزارش کی کہ بلدیاتی اداروں میں جو چار سالوں کے دوران جو کرپشن ہوئی اس کیخلا ف کارروائی کرے اورملوث افراد کو بے نقاب کرے۔