بلوچستان کے ضلع پشین میں سرکاری اسکولوں سے بچیوں کے ڈراپ آؤٹ کی شرح انتہائی حد تک بڑھ گئی

0

رپورٹ ۔۔۔ارباز شاہ
چھ سالہ اقراء اپنی والدین کی اکلوتی اولاد ہے

جو گرلز پرائمری سکول پشین میں پڑھتی ہے۔

اکبر اور اس کی بیوی عارفہ اقراء کو بلند مقام پر فائز دیکھنا چاہتے ہیں مگر وہ اپنی بچی کو سکول میں داخل کرانے کے باوجود مایوس ہیں

اقراء کے والدین کاشکوہ ہے کہ اقراء کوسکول میں تربیت اور تعلیم نہیں دی جارہی وہ الزام عائد کرتی ہیں کہ پشین میں تعلیمی نظام بد نظمی کاشکار ہے

سکولوں کاعملہ پورا نہیں ہوتا گھو سٹ اساتذہ بھی ہیں انتظامی نگرانی کوئی نہیں جس سے ان کا تعلیمی اداروں سے بھروسہ اٹھ رہا ہے
اقراء کے والدین کہتے ہیں ’’ایک سال ہونے کے باوجود اقراء میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی بلکہ وہ اور خراب ہوتی جارہی ہے ‘‘

پشین پاکستان کے صوبے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے بعد سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا ضلع ہے جس کی کل آبادی 2017 کے مردم شماری کے مطابق 736841 ہے

جو دارالحکومت کوئٹہ کے بعد ملک کو سب سے زیادہ ٹیکس کماکر دیتا ہے۔حالیہ پشین کو 26 مئی 1879 کو افغان حاکم امیر یعقوب اور اس وقت کے برطانوی نمائندے کے ساتھ ہونے والے “گنڈمک” معاہدے کے تحت برٹش بلوچستان میں شامل کیا گیا

بچے کی پہلی درسگاہ اس کی ماں ہے۔عورت اگر ناخواندہ ہوگی تو پوری نسل تعلیم سے بے بہرہ ہوجاتی ہے

محکمہ تعلیم کے اعداد وشمار کے مطابق ’’ضلع پشین میں ڈراپ آؤٹ کی شرح زیادہ ہے اور 21000 ایسے لڑکیاں ہیں جوکہ پرائمری لیول کے بعد سکول چھوڑکر گھر پر بیٹھ جاتی ہے داخلے کی شرح لڑکیوں کے حوالے سے کل 21867 ہے‘‘

یہ بھی پڑھیں
1 of 8,657

’’پشین کی کل آبادی کے تناظر میں لڑکیوں کے سکولوں کی تعداد پرائمری 206،مڈل سیکشن 44،اور ھائی سکول 18 ہیں جبکہ ایک ہائی سیکنڈری سکول بھی ہے ‘‘اس کے مطابق ضلع میں سکولوں کی مجموعی تعداد269ہے جس میں لڑکیوں کی انرولمنٹ 21867ہے

والدین کے شکوؤں کے پیش ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر فی میل مس خالدہ تاج بھی اس بات سے متفق ہیں کہ پشین کے تعلیمی نظام میں خامیاں ا ور کمزوریاں ہیں

مس خالدہ تاج اس کی وجہ سیاسی مداخلت کو قرار دیتی ہیں وہ کہتی ہیں ’’سیاسی مداخلت نے بڑی حدتک تعلیمی اداروں کو متاثر کر رکھا ہے جو اساتذہ سفارش پر اس نظام کا حصہ بنتے ہیں ان کی صلاحیت علمی فکری لحاظ ہمارے لیول کے مطابق نہیں ہوتی جس کے باعث ان کی وجہ سے بچے تعلیم حاصل نہیں کرسکتے اور ان کا مستقبل تباہ ہوجاتا ہے جو لمحہ فکریہ ہے

محکمہ تعلیم کے آفیسر کلیم اللہ شاہ کہتے ہیں کہ ہم علاقے میں تعلیمی شعور اجاگر کرنے کیلئے کوشاں ہیں اور اس سلسلے میں ہم نے متعدد بار آگاہی مہم چلائی تاکہ والدین کوراغب کیا جاسکے کہ وہ اپنے بچوں کوتعلیم کے زیور سے آراستہ کریں

تعلیمی اداروں میں سیاسی مداخلت کے حوالے سے پشین ایجوکیشن افیسر “کلیم اللہ شاہ”کہتے ہیں

2013 کے جنرل الیکشن میں حلقہ پی بی 08 سے پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے پلیٹ فارم سے منتخب رکن صوبائی اسمبلی “آغا سید لیاقت علی اعتراف کرتے ہیں کہ ان کے دور میں تعلیمی بد نظمی اور ناخواندگی کامکمل خاتمہ نہ ہوسکا مگر ان کی کوششوں سے اس میں بڑی حد تک کمی آئی ہے

آغا سید لیاقت علی کہتے ہیں’’ہماری کوششوں سے پہلے پشین کے سکولوں میں پڑھانے کے لئے اساتذہ پنجاب اور سندھ سے آیا کرتے تھے مگر اب یہاں کے مقامی بچیاں پڑھانے لگی ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بچیاں پرائمری لول کے بعد اگر گھر بیٹھ جاتی ہے تو اس میں سب سے بڑی وجہ کم عمری شادی کا ہونا ہے جو بچیوں کو تعلیم سے دور رکھنے کاسبب ہے ایک ناخواندہ بچی ایک ناخواندہ نسل ہے

سید لیاقت علی کہتے ہیں
’’ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی اقتداراور ایوانوں میں نمائندگی کے بغیر بھی ملک و قوم کی خدمت میں پیش پیش رہی ہے۔ہر سال مارچ کے مہینے میں پختونخواہ ملی عوامی پارٹی ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مل کر ایک تعلیمی شعوری مہم چلاتی ہے

سابقہ دور حکومت میں تعلیمی ایمرجنسی رہی لیکن اس کے باوجود محکمہ تعلیم کے مسائل میں کمی نہ ہوسکی

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.