جبری گمشدہ افراد کے حق کیلئے آواز اٹھاﺅں گا، ان کی آڑ لینے والوں سے رعایت نہیں ہوگی، جمال رئیسانی

کوئٹہ پاکستان پیپلزپارٹی کے نومنتخب رکن قومی اسمبلی نوابزادہ جمال خان رئیسانی نے کہاہے کہ مجھے اس بات کا اعزاز حاصل ہے کہ پہلے میں کم عمر ترین نگران وزیر رہا اور اب کم عمر ترین رکن قومی اسمبلی ہوںآصف زرداری بلوچستان کے مسائل کے حل میں دلچسپی رکھتے ہیںوفاق میں بلوچستان کی نمائندگی لازمی ہے؟جبری گمشدہ افراد کے حق کے لیے آواز اٹھاﺅں گاقومی اسمبلی میں بلوچستان کے مسائل اجاگر کریں گے عوام سے کیے وعدے پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کروں گا

لوگوں کے سوالات سے خوشی ہوئی مجھ پر تنقید بہت زیادہ ہوتی ہے لوگ تنقید کے بجائے رہنمائی کرتے تو اچھا ہوتا۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے بلوچستان سے نو منتخب رکن قومی اسمبلی جمال رئیسانی نے وی نیوز سے ایک انٹرویو میں کیا۔ایک سوال کے جواب میں جمال رئیسانی کا کہنا تھا کہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے پر خوشی اس بات کی ہے کہ لوگوں نے مجھ پر اعتماد کیا اور اس بات کی اہمیت کو سمجھا کہ ایک نیا چہرہ پارلیمان میں آنا چاہیے، جمال رئیسانی کے مطابق عوام نے مجھ سے امیدیں بھی وابستہ کر رکھی ہیں اس لیے ڈر ہے کہ اگر ان کی امیدوں پر پورا نہ اترا تو کیا جواب دوں گا۔ تاہم اپنی ہر ممکن کوشش کروں گا کہ عوام سے کیے ہوئے وعدوں کو پورا کر سکوں۔ایک سوال کے جواب میں جمال رئیسانی کا کہنا تھا کہ دوران مہم حلقے کی عوام اس بات سے خوش تھے کہ ایک نوجوان اور ایک نیا چہرہ انتخابات میں حصہ لے رہا ہے، لیکن اس بات سے مجھے مایوسی ہوئی کے دوران مہم لوگوں نے ووٹ دینے کا وعدہ کیا اور مجھے سے کوئی سوال نہیں کیا۔ میں تو لوگوں سے کہتا تھا کہ آپ ان امیدواران سے سوال کریں کہ ہمارے لیے آپ کیا کریں گے۔ تاہم جب میں نے انتخابی مہم کا دوسرا مرحلہ شروع کیا تو مجھ سے عوام نے سوال کیا

جس پر مجھے خوشی ہوئی۔خود پر ہوئی تنقید سے متعلق سوال کے جواب میں جمال رئیسانی نے کہا کہ مجھ پر تنقید بہت زیادہ ہوتی ہے، کبھی میری عمر کے حوالے سے اور کبھی میری والدہ کی شہریت کو لے کر۔ان کا کہنا تھا کہ سیاستدانوں پر تنقید ہوتی ہے اور یہ سیاست کا حصہ ہے لیکن میرا ماننا ہے کہ جس پر زیادہ تنقید ہوتی ہے وہ کامیابی کی جانب گامزن ہوتا ہے۔جمال رئیسانی کہتے ہیں کہ ایک بات کا افسوس ہے کہ اگر یہی لوگ تنقید کے بجائے میری رہنمائی کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ میں انہی معتبرین کا بچہ ہوں ان ہی کے صوبے سے تعلق رکھتا ہوں تو اگر یہ لوگ تنقید کی بجائے رہنمائی کریں تو زیادہ بہتر ہے۔ لوگ میری والدہ اور مجھ پر تنقید کرتے ہیں لیکن وہ ہماری قربانیاں بھول جاتے ہیں۔اسمبلی میں بلوچستان کو درپیش مسائل اجاگر کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں جمال رئیسانی کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے مسائل کو ترجیحات دینے کی ضرورت ہے۔ سارے مسائل ایک ساتھ حل نہیں ہوسکتے۔ بلوچستان کے مسائل اس وقت گنجل ہوچکے ہیں جنہیں سلجھانے کے لیے ایک ایک کر کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔جمال رئیسانی کے مطابق میری کوشش ہوگی کے مسائل کو 3 حصوں میں تقسیم کروں، پہلے اسمارٹ ٹرم مسائل، دوسرے مڈ ٹرم مسائل اور تیسرے لانگ ٹرم مسائل اور پھر ان مسائل کو مرحلہ وار حل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں
1 of 8,946

لاپتا افراد سے متعلق جمال رئیسانی نے کہا کہ میں ایوان میں جبری طور پر گمشدہ افراد کے حق کے لیے آواز اٹھاں گا، لیکن صرف ان کے لیے جو واقعی جبری طور پر لاپتا ہوئے ہیں۔ اس بات کو دیکھنا ہوگا کہ جوانوں کو کیوں جبری طور پر لاپتا کیا جاتا ہے۔ لیکن جو لوگ لاپتا افراد کی آڑ میں دہشت گردی کرتے ہیں انہیں ہم اجازت نہیں دیں گے کہ ہمارے معصوم بچوں اور غریب عوام کو نشانہ بنائیں۔جمال رئیسانی کے مطابق جہاں ایک جانب میں لاپتا افراد کی بات کروں گا وہیں دوسری جانب شہدا کے خاندانوں کے لیے بھی آواز بلند کروں گا جنہوں نے ملک کی خوشحالی کے لیے قربانیاں دیں۔وفاقی حکومت میں وزرات سے متعلق سوال پر جمال رئیسانی نے کہا کہ وزرات سے متعلق پارٹی فیصلہ کرے گی۔ لیکن ایک چیز میں نے اپنی جماعت کے مرکزی عہدیداران سے کہہ رکھی ہے کہ اگر وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنتی ہے تو اس میں بلوچستان کی نمائندگی ہونا لازم ہے تاکہ صوبے کے مسائل سے متعلق آواز اٹھا سکیں۔جمال رئیسانی نے کا کہنا ہے کہ آصف زرداری صاحب ذاتی حیثیت میں بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ صوبے کے مسائل حل ہوں۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.