رپورٹ: مرتضیٰ زیب زہری
بلوچستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات نمایاں ہو چکے ہیں، اور اس کا سب سے زیادہ نقصان زرعی شعبے کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ شدید گرمی، پانی کی قلت، اور بارشوں میں کمی نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں فصلوں اور پھلوں کی پیداوار پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔
زرعی پیداوار میں نمایاں کمی نہ صرف کسانوں کے لیے معیشتی مشکلات پیدا کر رہی ہے، بلکہ صوبے کی معیشت پر بھی گہرے اثرات ڈال رہی ہے۔
بلوچستان کے ضلع پشین کے علاقے کان مہترزئی میں سیب کی پیداوار مشہور ہے، لیکن حالیہ برسوں میں اس کی پیداوار میں زبردست کمی آئی ہے۔
محمد ایوب، ایک تجربہ کار کاشتکار، جو برسوں سے یہاں میٹھے اور رسیلے سیب کاشت کرتے آرہے ہیں۔
انہوں نے بلوچستان24 کو بتایا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ان کی زمین بنجر ہوتی جا رہی ہے۔
ایوب نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا، “پانی کی شدید کمی اور بارشوں کی غیر موجودگی نے ہماری زمینوں کو سوکھا کر دیا ہے۔ سیب کے درختوں کو پانی کی بہت ضرورت ہوتی ہے، لیکن اب نہ تو بارش ہوتی ہے اور نہ برفباری، جس سے پیداوار آدھی سے بھی کم ہو گئی ہے۔”
محمد ایوب کا کہنا ہے کہ پہلے وہ ہزاروں من سیب پیدا کرتے تھے، جس سے انہیں اچھی آمدنی ہوتی تھی، لیکن اب حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ فصل کی فروخت سے خرچ بھی پورا نہیں ہوتا۔
وہ کہتے ہیں، “پانی نہ ہونے کے سبب ہم فصلوں کو پورا پانی نہیں دے پاتے، اور نتیجتاً سیب چھوٹے اور کمزور ہو جاتے ہیں۔ اس سال پیداوار نے مجھے لاکھوں کا نقصان دیا ہے۔”
کان مہترزئی کے علاوہ بلوچستان کے دوسرے علاقے بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے محفوظ نہیں رہے۔
ضلع ژوب میں گندم اور مکئی کی کاشتکاروں کو بھی پانی کی قلت کا سامنا ہے۔
ضلع ژوب کے کسان عبدالرؤف نے بتایا بلوچستان 24 “ہماری فصلوں کا دارومدار بارشوں پر ہوتا ہے، اور جب بارشیں کم ہو جاتی ہیں تو گندم اور مکئی کی فصلیں بھی ناکام ہو جاتی ہیں۔
پچھلے چند سالوں میں بارشیں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں، جس سے ہماری پیداوار میں 50 فیصد سے زیادہ کمی ہو چکی ہے۔”
بلوچستان کے مکران ڈویژن میں بھی صورتحال مختلف نہیں ہے۔پنجگور اور تربت جیسے علاقوں میں کھجور کی کاشت متاثر ہو رہی ہے۔
تربت کے کاشتکار بسم اللہ بلوچ نے بتایا بلوچستان 24 سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ “کھجور کے درخت پانی کی کمی اور زیادہ گرمی کی وجہ سے مرجھا رہے ہیں۔ ہماری زمینیں سخت ہو گئی ہیں اور ہم اپنی فصلوں کو بروقت پانی فراہم نہیں کر پا رہے، جس سے فصلوں کی کوالٹی متاثر ہو رہی ہے۔”
کسانوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں نہ صرف بارشوں میں کمی آئی ہے بلکہ درجہ حرارت میں اضافے نے فصلوں اور پھلوں کی بڑھوتری کے دورانیے کو بھی متاثر کیا ہے۔
ایک اور کسان نور احمد، جو بلوچستان کے ضلع مستونگ میں انگور کی کاشت کرتے ہیں، نے بتایا، “انگور کی فصل زیادہ گرمی برداشت نہیں کر سکتی، لیکن پچھلے کچھ سالوں سے گرمی کا دورانیہ لمبا ہو گیا ہے، جس سے انگور کے باغات متاثر ہو رہے ہیں۔”
کسانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر حکومت اور متعلقہ ادارے بروقت اقدامات نہیں کریں گے تو بلوچستان کا زرعی شعبہ مکمل طور پر تباہ ہو سکتا ہے۔
وہ جدید آبپاشی نظام، ڈیموں کی تعمیر، اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے مخصوص فصلوں کی کاشت کے طریقوں کی تربیت کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔
بلوچستان میں زرعی پیداوار میں کمی اور ماہرین کی رائے
بلوچستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات زرعی شعبے پر تیزی سے نمایاں ہو رہے ہیں، اور اس حوالے سے ماہرین کی رائے اور مختلف رپورٹس بھی تشویش کا اظہار کرتی ہیں۔
زرعی ماہرین کے مطابق بلوچستان میں زرعی پیداوار کی کمی کا سب سے بڑا سبب پانی کی شدید قلت ہے، جو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مزید بڑھ گئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بارشوں اور برفباری کی کمی نے زیر زمین پانی کی سطح کو انتہائی نچلی سطح پر پہنچا دیا ہے۔ فصلوں کو پانی نہ ملنے کی وجہ سے ان کی پیداوار میں زبردست کمی آئی ہے، خاص طور پر میٹھے اور رسیلے سیب کی پیداوار میں۔”
موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بلوچستان میں درجہ حرارت میں اضافہ بھی ہوا ہے، جس کی وجہ سے فصلوں کا بڑھنے کا دورانیہ متاثر ہو رہا ہے “
سرکاری اور بین الاقوامی رپورٹس
بلوچستان کی زرعی صورتحال پر کئی سرکاری اور بین الاقوامی رپورٹس بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات کو اجاگر کرتی ہیں۔
بلوچستان حکومت کی 2022 کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ صوبے کے 60 فیصد علاقوں میں پانی کی شدید قلت ہے، اور زیر زمین پانی کی سطح ہر سال مزید نیچے جا رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، پانی کے وسائل کی ناکافی منصوبہ بندی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے زرعی شعبے کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔
اسی طرح اقوام متحدہ کے خوراک و زراعت کے ادارے کی سال 2023 کی رپورٹ کے طابق بلوچستان کے خشک علاقوں میں بارشیں پہلے سے 30 فیصد کم ہو چکی ہیں، جس کی وجہ سے وہاں کی زرعی معیشت بحران کا شکار ہے۔
رپورٹ میں خاص طور پر سیب، انگور، کھجور اور گندم کی پیداوار میں کمی کا ذکر کیا گیا ہے۔
ادھر اقوام متحدہ کے عالمی موسمیاتی تنظیم ڈبلیو ایم او کے مطابق پاکستان کے جنوبی حصوں میں درجہ حرارت میں اوسطاً 2 سے 3 ڈگری سیلسیس کا اضافہ ہو چکا ہے۔ یہ اضافہ فصلوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے، خاص طور پر بلوچستان کے خشک اور نیم خشک علاقوں میں۔
بلوچستان حکومت کا موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے پالیسی مرتب کرنے کا فیصلہ
بلوچستان حکومت نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ایک جامع پالیسی مرتب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان، سرفراز بگٹی، نے صوبائی اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران اس اہم اقدام کا اعلان کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث صوبے کی زرعی، آبی اور معاشی صورتحال کو شدید نقصان پہنچا ہے، جس سے نمٹنے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
وزیر اعلیٰ نے اپنی تقریر میں کہا، “بلوچستان کا جغرافیہ اور موسمی حالات ایسے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات یہاں زیادہ شدت سے محسوس کیے جا رہے ہیں۔ زرعی پیداوار میں کمی، پانی کی قلت اور بڑھتی ہوئی گرمی کی وجہ سے عوام اور معیشت دونوں متاثر ہو رہے ہیں۔”