انہوں نے کہا کہ مرگی ایک مہلک لیکن قابل علاج مرض ہے پاکستان میں جس سے دو ملین سے زائد لوگ متاثرہیں۔ڈاکٹر فوزیہ نے کہا کہ یہ لوگ نارمل زندگی گذارسکتے ہیں اگر مرگی کے مرض کی ادویات بلاتعطل اور برانڈ کی تبدیلی کے بغیرآسانی سے دستیاب ہوں۔
اینٹی ایپی لیپٹک ڈرگس (AED) / مرگی کی ادویات کی اچانک عدم دستیابی مرگی کے مریضوں کی زندگی کیلئے خطرہ بن سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بغیر کسی اطلاع یا انتباہ کہ گذشتہ چند ماہ سے مرگی کے امراض کی ادویات مارکیٹ سے غائب کردی گئی ہیں ۔
ادویہ ساز ادارے اس کی ذمہ داری وزارت صحت پر عائد کررہے ہیں۔ تاہم، کم لاگت والی ان عام ادویات جس میں منافع کی شرح کم ہوتی ہے کی قلت سے نمٹنے کے لئے انتہائی کم کام کیا گیا ہے۔
اس وقت پردیڈون(primidone)، فینووروبائل(phenobarbital) ، ایتوسکسیمائڈ(ethosuximide)، فینیٹی(phenytoin) اور کللوام(clobazam) سمیت مرگی کے امراض کی اہم ادویات کی قلتShortage) (ہے۔ یہ تمام ادویات مہنگی نہیں ہیں لیکن مرگی مریضوں کی زندگی بچانے کیلئے ہیں۔
حال ہی میں مرگی کے مرض کی ادویات پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کے نتیجے میں کئی مریضوں کو ایمرجنسی میں اسپتال آنا پڑا ۔
انہوں نے مزید کہا کہ میرے مریض مجھ سے کچھ کرنے کے لئے کہہ رہے ہیں، متبادل ادویات تجویز کرنے کا کہتے ہیں لیکن نئی دوائیں ہمیشہ وہ کام نہیں کرتی ہیں اورجس کی وجہ سے ان کی زندگی خطرے میں ہے۔بہرحال جو بھی ذمہ دار ہیں، وہ لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔
اس طرح کیاحاصل کیا جا رہا ہے، کوئی اپنی جان کھو دیتا ہے؟یہ ادویات جو تقریبا 50 سال یا اس سے زیادہ عرصہ سے موجود ہیں، اچانک کیوں مرگی کے مریضوں کو ان مسائل کا سامنا کرنا پڑا جبکہ پہلے ایسے مسائل کبھی موجود نہیں تھے۔
آئی سی یوزمیں زیرعلاج مریض مسلسل جھٹکے (Seizures) لیتے ہیں کیونکہ فینبوبوباون (phenobarbitone) اور فینیٹ (phenytoin)جیسی ادویات کی قلت ہے یا غیر معیاری (sub-standard) ہیں۔
اب تک ادویات ساز کمپنیوں اوروزارت صحت نے دواؤں کی قلت سے متعلق وضاحت نہیں کی، معالج اور مریضوں کو جواب کیلئے منتظر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے میڈیا سے اپیل کی کہ وزیرصحت سائرہ افضل تارڑ اور متعلقہ وزارت کے افسران کی مرگی کی ادویات کی قلت کی طرف بھرپور توجہ دلائیں۔