میر گل خان نصیر:بلوچی زبان اور پاکستانی ادب کا بڑا اثاثہ
میر گل خان نصیر کی شخصیت ایک گلدستہ کی مانند تھی۔ پروفیسر ڈاکٹر بدل خان
اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام بلو چی کے نامورترقی پسند شاعر، محقق، مورخ اور دانشور میر گل خان نصیر کی 37ویں برسی کی مناسبت سے منعقدہ اسلام آباد میں آن لائن میر گل خان نصیر قومی ادبی سیمینارمنعقد ہوا۔
مجلس صدارت میں افتخار عارف اور پروفیسر ڈاکٹر بدل خان شامل تھے۔
ڈاکٹر یوسف خشک، چیئرمین ، اکادمی ادبیات پاکستان نے ابتدائیہ پیش کیا۔ تاج جویو اور احمد سلیم مہمانان خاص تھے۔
ڈاکٹر واحد بخش بزدار، ڈاکٹر عبد الصبور بلوچ اور ڈاکٹر عبد اللہ جان عابد مہمانان اعزاز تھے۔
ڈاکٹر رحیم بخش مہر، ڈاکٹر لیاقت سنی ،یار جان بادینی، ڈاکٹر رمضان بامری اور طارق رحیم بلوچ نے اظہار خیال کیا۔ نظامت ڈاکٹر ضیاءالرحمن بلوچ نے کی۔
اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر یوسف خشک نے استقبالیہ کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ
میر گل خان نصیرایک ہمہ جہت تخلیق کارتھے۔ وہ قادر الکلام شاعر، ادیب، مورخ، سیاستدان، صحافی اور ممتاز ماہر تعلیم تھے۔
میر گل خان نصیر نے حب الوطنی شعور و آگہی اور احترام آدمیت کے موضوعات کو اپنے شعری حسن اور موثراظہار کے ذریعے قاری تک پہنچایا۔
ان تمام شعبوں میں اُن کا کردار سب سے نمایاں رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میر گل خان نصیر نے بلوچ قوم کو اپنی تعلیم کی طرف راغب کیا۔
انہوں نے انسانی اقدار کی پاسداری اور مظلوم مزدور وں اور کسان بلوچوں کے لیے اپنی زندگی صرف کی۔
۔ڈاکٹر یوسف خشک نے مزید کہاکہ میر گل خان نصیر ایک روشن خیال ترقی پسند ادیب تھے
انھوں نے فیض احمدفیض کے شعری مجموعہ سرِ وادی سیناکا بلوچی منظو م ترجمہ سینائی
کیجک کے عنوان سے کی ۔
اور شاہ لطیف کی شاعری جس میں بلوچوں کا ذکر ہے اس کا بلوچی ترجمہ کیا جو اہمیت کا حامل ہے۔
بلند افکار کی شاعری کی وجہ سے انہیں ملک الشعراءکا خطاب بھی ملا۔
پاکستانی ادب کا بڑا اثاثہ
صدارتی خطاب کرتے ہوئے افتخا ر عارف نے کہا کہ میر گل خان نصیر کا ادبی سرمایہ نہ صرف بلوچی زبان کا بلکہ پاکستانی ادب کے لیے بڑا اثاثہ ہے۔
انہوں نے کہاکہ بلوچی شعر و ادب کا کوئی تذکرہ میر گل خان نصیر کے بغیر نامکمل ہے۔
فیض احمد فیض، شیخ ایازاور اجمل خٹک کی طرح میر گل خان نصیر بلوچی زبان و پاکستان کے ممتاز ترین شاعر، دانشوراور سیاستدان تھے۔
انہوں نے ساری زندگی ایک خاص مشن کے طور پر گزاری جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر بدل خان نے کہا کہ میر گل خان نصیر ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔
وہ ایک گل دستہ کی مانند تھے۔ وہ بنیادی طور پر شاعر تھے۔ ان کی شاعری میں عوامی اور انقلابی رنگ نمایاں ہے۔
انہوں نے بلوچی زبان اور شعر و ادب کے ساتھ بلوچی لوک ادب اور تاریخ پر کام کیا۔
تاج جویونے کہا کہ میر گل خان نصیر بلوچی زبان کے بڑے تخلیق کار ہیں۔
وہ سندھی زبان کے شاعر شیخ ایاز اور پشتو شاعر اجمل خٹک کی طرح اپنی قوم کے نمائندہ شاعر ہیں۔
اُن کے لہجے میں گن گرج کا عنصر نمایاں ہے۔ اُن کی شاعری میں رومان کی جگہ رزمیہ انداز اسی وجہ سے ہے۔
کہ سار ی زندگی اس نے اپنی قوم کے لیے جنگ و جدل میں گزاری۔
میر گل خان نصیر کی شناخت
احمد سلیم نے کہاکہ میر گل خان نصیر ، شاعر، ادیب، مترجم، صحافی مورخ اور سیاستدان تھے۔
وہ بلوچی زبان کے بہت بڑے شاعر تھے اور یہی ان کی بڑی شناخت ہے۔
ڈاکٹر واحد بخش بزدارنے کہا کہ میر گل خان نصیر ہمہ جہت لکھاری تھے ۔ وہ شاعر، ادیب، محقق، مورخ اور سیاستدان اور انسان دوست شخص تھے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے علمی اور سیاسی تحریکوں میں میر گل خان نصیر اور یوسف مگسی پیش پیش رہے۔
انہوں نے محکوم بلوچی قوم کو قبائلی جبر کے نظام سے آزاد کیا۔
ڈاکٹر عبد الصبور بلوچ نے کہا کہ میر گل خان نصیر فکری طور پر فیض ،شیخ ایاز اور اجمل خٹک سے جڑے تھے۔
اُنہوں نے بلوچی زبان و ادب کے لیے کام کیا۔ وہ ہمہ جہت تخلیق کار تھے۔ اُن کی اصل شناخت شاعر کی ہے۔
ہمیں میر گل خان نصیر کے افکار اور تعلیمات سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر عبد اللہ جان عابدنے کہا کہ میر گل خان نصیر کی شاعری کا خوشگوار پہلو یہ بھی ہے کہ انہوں نے پختونخواہ چارسدہ سے اپنی شاعری کا آغاز کیا۔
میرگل خا ن نصیر، شیخ ایاز اور ہمارے پشتو کے نامور شاعر اجمل خٹک اور قلندر مومند نے اپنے مظلوم اور محکوم طبقوں کےلیے نہ صرف شاعری کی صورت بلکہ عملی طور پر جدوجہدکی۔
ان تمام شعرا میں قربت تھی اور ایک ہی مشن تھا۔ڈاکٹر رحیم بخش مہر، ڈاکٹر لیاقت سنی ،یار جان بادینی، ڈاکٹر رمضان بامری
اور طارق رحیم بلوچ نے میر گل خان نصیر کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ میر گل خان نصیر نے جہد ِمسلسل اور انقلاب کی شاعری کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میر گل خان نصیر نہ صرف پاکستان کے شاعر تھے بلکہ وہ پوری دنیا کے مظلوموں کے شاعر تھے