چاغی کی سیاست پر ایک نظر

اس وقت بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی( باپ) انتہائی سرگرم  ہے

فاروق سیاہ پاد

بلوچستان کے ایران سے متصل سرحدی ضلع چاغی کی سیاست کسی طرف جارہی ہے اس کے بارے میں قبل از وقت کہنا نا ممکن ہے۔

لیکن اس وقت بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی( باپ) انتہائی سرگرم  ہے۔اس جماعت کو قائم ہوئے تین سال ہوچکے ہیں۔

 اگر کوئی بچہ پیدا ہوجائے تین سال کے بعد وہ بچہ کتنی سمجھ بوجھ رکھتا ہے۔ اسکا اندازہ آپ بخوبی لگا سکتے ہیں

لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں ہے۔

کہ بلوچستان عوامی پارٹی میں بلوچستان کے انتہائی زیرک سیاستدان شامل  ہیں۔

 جس میں سعید ہاشمی،جان محمد جمالی،کریم نوشیروانی،سردار عبد الرحمان کھیتران،ملک خدا بخش لانگو،

حاجی ولی نورزئی اوراس کے علاوہ سرفراز بگٹی،میر عبد القدوس بزنجو،میر اعجاز خان سنجرانی،میر غلام دستگیر بادینی،

اسفندیار کاکڑ،،منظور آحمد کاکڑ،ودیگر تازہ دم سیاستدان بھی اس کشتی میں سوار نظر آتے ہیں۔

بی اے پی پر ایک سوال ہمیشہ اٹھایا جاتا ہے کہ راتوں رات بننے والی پارٹی اقتدار تک کیسے پہنچ گئی؟

یہ معمہ ابھی تک حل طلب ہے۔  کسی بھی پارٹی کو بننے اور بنانے میں کافی فرق ہوتا ہے ۔

 بنائی جانے والی پارٹی کو ہمیشہ تنقیدی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اور حالات سے بننے والی پارٹی کو کافی قربانی دینا پڑتی ہے۔

 کسی بھی پارٹی کی منشور کو پڑھا جائے تو اس پارٹی کی بننے کا وجہ سامنے آتی ہے شاہد بی اے پی پارٹی کی بھی کوئی وجہ ہوگی؟

اگر ایک پارٹی تنظیمی حوالے سے مضبوط ہو اسے کامیاب پارٹی تصور کیا جاتا ہے۔

چاغی ضلع میں بی اے پی کوکم مدت میں یونٹ سطح تک فعال بنایا گیاہے۔ اس پارٹی کو فعال بنانے میں رخشان ڈویثرن کے آرگنائزر میر اعجاز خان سنجرانی کی انتھک محنت کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے۔

ضلع چاغی میں کسی بھی تحصیل میں آپ کو بی اے پی مکمل فعال نظر آتی ہے۔ بعض دیگر جماعتوں کے نظریاتی رہنما بھی اپنی سالوں کی وفاداریاں چھوڑ کر اس پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں۔

اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بی اے پی آنے والے دور میں میدان میں اترنے کے لیے اپنی کمر کس لی ہے۔

 اور اپنی تیاریوں میں مصروف عمل ہے۔ اورادھر صوبائی سطح پر بی اے پی کے اندر اندرون خانہ اختلافات بھی زیر گردش ہیں۔

 وزیر اعلیٰ بلوچستان پارٹی کو اپنی مرضی سے چلا رہا ہے اور باقی پارٹی رہنما پارٹی کو اپنی انداز میں چلارہے ہیں جو سب کے سامنے عیاں ہے۔

ہر پارٹی کے اندر اختلافات ہوتے ہیں مگر پارٹی کے منشور اور دستور کی خلاف ورزی نہیں کی جاتی ہے۔

تجزیہ کاروں کی رائے

 بعض سیاسی تجزیہ کار بی اے پی کو مستقبل کی مسلم لیگ ق بھی قرار دے رہے ہیں۔

رخشان ڈویثرن کے آرگنائزر میر اعجاز خان سنجرانی سے بی اے پی کی مستقبل کے بارے میں سوال کیا گیاان کا جواب یہ تھا کہ  بی اے پی مستقبل میں مزید منظم اور فعال ہوکر سامنے آئےگی۔

اعجاز خان سنجرانی بھی اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز بی اے پی سے کرچکے ہیں۔

 پارٹی اور ورکروں کو منظم اور فعال رکھنے کی بھر پور کوششوں میں مصروف عمل ہے سینٹ الیکشن کے بعد یہ واضع ہوجائے گی۔

 کہ بی اے پی واقعی بلوچستان میں اپنی لوہا منوائیگی یا محض وقتی اقتدار تک پہنچنے کے لیے یہ پلیٹ فارم بنایا گیا۔

 اور اسے ایک ڈھال کی صورت میں استعمال کیاجارہا تھا دوسری جانب ضلع چاغی کی سیاست میں میر اعجاز خان سنجرانی انٹری کرچکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں
1 of 8,946

آنے والے دور میں میر اعجاز خان سنجرانی کسی بھی نشست کیلئے ایک مضبوط امیدوار کی صورت میں میدان میں اترنے والے ہیں۔

ضلع کے اندر ماضی میں بابائے چاغی پینل،اور الفتح پینل مد مقابل نظر آتے تھے۔ تیسری کوئی بھی قوت ان دوسیاسی قوتوں کے درمیان کھود نہیں پڑتاتھا ۔

اب چونکہ خان پینل اور بی اے پی کی سیاسی سرگرمیوں سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ آنے والے دور میں آسان حریف نہیں ہوگا۔

چاغی کی سیاست کا نقشہ

ضلع چاغی کی سیاست ایک انوکھی شکل اختیار کرچکی ہے۔ ضلع کے اندر اپوزیشن کی

خاموشی پر عوامی حلقے سوال اٹھا رہے ہیں۔

 موجودہ حکمران نمائندہ جسے وزیر اعلیٰ بلوچستان کا دست راست سمجھا جاتا ہے۔

 2018کے الیکشن میں چاغی عوام نے تبدیلی کی نام پر بھر پور ساتھ دے کر اسے کامیاب بنایا۔

 مگر ضلع کے بنیادی مسائل حل کرنے میں کامیاب دکھائی نہیں دے رہا ہے۔

ان ڈھائی سالہ عرصے میں سڑکیں،تعمیر و مرمت،ودیگر کاموں کیلئے اربوں روپے کی ترقیاتی کام شروع کرچکے ہیں۔

 مگر بنیادی مسائل صحت،تعلیم،شہروں کے اندر آبنوشی کے مسئلے اب تک حل ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔

 ضلع کے اندر بے روزگاری بھی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے نوجوانوں کو روزگار دینے میں بھی ابھی تک کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی ہے۔

ضلع کے اندر ترقیاتی کاموں میں بھی عملی منصوبہ نہ ہونے کی وجہ سے عوام میں تشویش پائی جاتی ہے۔

 ضلع کے اندر بے شمار کاموں پر عوام انگلی اٹھا رہے ہیں۔ اس کے باوجود کہ  شہر کے اندر ماسٹر پلان کے نام پر کام جاری ہے۔

 مگر المیہ یہ ہے کسی بھی اتنے بڑے پروجیکٹ کیلئے کنسلٹنٹ،سرویئر،پلانر جیسے آفیسرز تعینات نہیں کیے گئے  ہیں۔

 ضلع بھر میں جاری کاموں کیلئے ایک ایکسیئن تعینات ہے۔ اتنے بڑے میگا پروجیکٹ کیلئے بلڈنگ کا الگ اور سڑکوں کا الگ ایکسیئن ہونا چایئے تھا۔

 مگر چاغی ضلع میں تمام ترقیاتی کام ایک ایکسیئن  کے رحم کرم پر ہیں۔

سیاہ پاد اسٹریٹ،داود آباد مدرسہ گلی میں نالیاں تعمیر تو ہو گئی ہیں۔ مگر منصوبہ بندی نہ ہونے کے سبب نالیاں کسی کام کے بھی نہیں رہے ہیں۔

 کلی ہاشم خان لنک روڈ ٹو این ایچ اے جسے نالیوں کی اشد ضرورت ہے ۔

اس میں نالیاں نہیں دی گئیں ایسے بے شمار اجتماعی اور ترقیاتی کام ہیں۔ جس پر عوام پیسوں کی ضیاع سمجھتے ہیں اس وقت ضلع کے اندر ٹھیکیداروں کے علاوہ باقی عوام مایوسی کا شکار ہیں۔

سابق وفاقی وزیر و سابق سنیٹر سردار فتح محمد حسنی نے نئی پارٹی بنانے کا اعلان کرچکے ہیں۔

 وہ بہت جلد ایک نئے منشور کے ساتھ اپنی پارٹی کا باضابطہ  اعلان کریں گے۔

 سردار فتح محمد حسنی نے مجھے اپنی ایک انٹرویو میں بتایاکہ ضلع چاغی میں طویل عرصے کے بعد چاغی ضلع کو وقت دے کر عوام کے درمیان رہنے کا فیصلہ کرچکا ہوں۔

 اس سے قبل سردار فتح محمد محمد حسنی کافی کم وقت چاغی ضلع کو دیا کرتا تھا۔

 دوسری جانب سابق صوبائی وزیر سخی میر امان اللہ خان نوتیزئی کی ضلع کے اندر سیاسی اثرورسوخ اور ووٹ بینک سے انکا ر سمجھنا سورج کو انگلی سے چھپانے کے مترادف ہے۔

 سخی امان اللہ خان نوتیزئی اپنے سیاسی حریفوں  کیلئے آسان نہیں ہوں گے۔

 کیو نکہ ضلع چاغی میں ان کے بہت زیادہ اتحادی پائے جاتے ہیں۔

 قبل از وقت کچھ کہنا ممکن نہیں ہے کون کس کے ساتھ ہوگا۔

 مگر یہ سمجھنا ہوگا بلوچستان عوامی پارٹی ضلع چاغی کی سیاست میں بہت تیزی کے انٹری کرچکی ہے۔ آنے والے دور میں تیسری قوت کے ساتھ میدان میں نظر آئےگی۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.