پشتونخواہ کے دور حکومت کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ،نصر اللہ زیرے

انٹرویو.عبدالکریم
کیمرہ مین.ناصر ساحل
دوہزار تیرہ سے دوہزار اٹھارہ تک مخلوط حکومت

قائم تھی اس سے پہلے پورے صوبے میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں تھی باالخصوص دوہزار چھ میں حکومت کی رٹ بالکل ختم ہوچکی تھا، کوئٹہ جو صوبے کا دارالحکومت ہے اس وقت روزانہ کی بنیاد پر ایک درجن کے قریب لوگ ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوتے یا اغواء ہوجاتے کوئٹہ چمن شاہراہ پر صورتحال اتنی گھمبیرتھی کہ کوئی بندہ اس شاہراہ پر سفر نہیں کرسکتا تھا۔ کوئٹہ خضدار شاہراہ کی صورتحال یہ تھی کہ آ ئے روز گاڑیاں چھینی جاتی لوگ اغواء ہوتے تھے ۔ڈیتھ اسکواڈ ہوتا تھا اسی طرح سبی جیکب آباد، ژوب اور قلعہ سیف اللّٰہ کی شاہراہیں بھی محفوظ نہیں تھیں اور وہاں ڈاکو راج قائم تھا اور لوگوں کا جان و مال محفوظ نہیں تھا ، لیکن ہمارے دور میں قانون کو عملی طور پر نافذ کیا گیا کوئٹہ چمن شاہراہ کی نہ صرف تعمیر کی بلکہ اس شاہراہ پر مکمل طور پر امن بحال کیا اور اسی طرح دیگر بڑے شاہراہوں کو آمدروفت کیلئے محفوظ بنائے اور کوئٹہ کو امن کا گہوارہ بنایا اور ہمارے دور میں اغواہ برائے تاوان کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا، ٹارگٹ جو ہورہی تھی وہ تقریباً مکمل طور پر ختم ہوئی، البتہ جو بڑے واقعات تھے جس سے تمام پاکستان اور تمام خطہ ان سے متاثر ہے وہ واقعات ہوتے رہے یعنی بم دھماکے اور خود کش حملے ۔ اس کے علاوہ ہم نے جو ترقی کے کام کیے اس کی مثال ماضی قریب میں یعنی گزشتہ بیس سال میں نہیں ملتی جتنے ہم نے دوہزار تیرہ سے دوہزار اٹھاراں تک کئے، ناقدین کا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ ہم اپنے دور میں ڈلیور نہ کرسکے، ہم نے ترقیاتی کام کئے اور وہ ترقیاتی کام عوام زمین پر دیکھ رہے ہیں.
تعلیم کے شعبے میں ہم نے پہلا کام یہ کیا کہ بولان میڈیکل کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دلوایا لورالائی اور خضدار میں میڈیکل کالج بنائے اور اسی طرح لورالائی اور تربت میں جامعات بنائے، اور مختلف اضلاع میں کیڈٹ کالجز اور ریذیڈنشنل کالجز بنائے ۔ پرائمری سکولز بنائے اور بہت سے پرائمری سکولوں کو اپ گریڈ کیا اور پانچ ہزار اساتذہ کو این ٹی ایس کے ذریعے تعینات کیا ہماری حکومت کی کہ پانچ ہزار

پشتونخوامیپ کے رہنما نصر اللہ زیرے بلوچستان 24کو انٹرویو دیتے ہوئے

اساتذہ کو میرٹ کے بنیاد پر تعینات کرنا بڑا اقدام تھا
میں نے اپنے حلقے پی بی پانچ میں پچیس سکول بنائے اور آج اس میں دس ہزار بچے اور بچیاں پڑھ رہی ہیں اور اسی طرح میں نے اپنے حلقے میں نو بنیادی صحت کے مراکز بنائے نہ صرف اس کیلئے زمین لی بلکہ اس زمین پر عمارت تعمیر کیا اور اس کیلئے پوسٹیں بھی منظور کروائیں ، اسی طرح اگر مجموعی طور پر آپ دیکھیں تو ہم نے صوبے کے ہسپتالوں کا حالت بہتر بنایا ہم نے ادویات کو کوٹہ بڑھایااور ڈاکٹروں کی تنخواہیں بڑھائیں تاکہ وہ جاکر اپنی اضلاع میں خدمات سرانجام دیں.

ہمارا صوبہ خشک سالی کے زد میں ہے جہاں خشک سالی آتی ہے تو قحط آتا ہے جب قحط آتا ہے تو بیماریاں بڑھتی ہیں خشک سالی صوبے میں خطرے کی صورت اختیار کرچکی ہے جس کے اثرات ہمارے بچوں پر بھی پڑے اور اسی لیے ان میں غزائی قلت کی کمی ہے خشک سالی کی وجہ سے لوگ دیہاتوں سے شہروں کی طرف نکل مکانی کررہے ہیں کیونکہ دیہی علاقوں میں باغات خشک ہوگئے مال مویشیوں ہلاک ہوگئے، لوگ پینے کے پانی کیلئے ترس رہے ہیں جس کے وجہ سے لوگوں کی صحت بھی متاثر ہورہی ہے اور بیماری بڑھ رہی ہے.پہلے بھی بڑی طویل خشک سالی ہوئی صوبے کے گرین بیلٹ کے سواء دیگر تمام اضلاع خشک سالی کی لپیٹ میں ہیں ہم نے اسمبلی کے فلور پر نومبر میں اس کی نشاندہی کی ہم نے مشترکہ طور پر ایک قراداد بھی پاس کروایا ہم نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ آپ تمام صوبے کو آفت زدہ قرار دیں آفت زدہ کا مطلب یہ ہوگا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت ان کی ممکنہ طور مدد کریں گے ٹیکس ان کا معاف ہوگا زمینداروں کو ریلیف ملے گا جو مال مویشی پالنے والے لوگ ہیں ان کو بھی ریلیف ملے گا، لیکن بدقسمتی سے حکومت نے سوائے چند اضلاع کے پورے صوبے کوآفت زدہ قرار نہیں دیا المناک صورتحال یہ ہے کہ پشین کا بند خوشدل خانسب سے بڑا ڈیم مکمل طور پرخشک ہے صورتحال ایسی تھی کہ انسان کو خوف آرہا تھا، اسی طرح لورالائی، قلعہ سیف اللّٰہ، موسی خیل کوہلو ، شیرانی،ژوب، بارکھان ،ہرنائی، قلعہ عبداللّہ اور جتنے ہمارے بلوچ علاقے ہے وہاں پر صورتحال انتہائی گھمبیر ہے دوسری طرف چاہیے وفاقی حکومت یا صوبائی حکومت انہوں نے غفلت کا مظاہرہ کیا ہے کہ ان کے پاس پورا ڈیٹا ہے نہیں ہم نے اسمبلی فلور پر یہ ثابت کیا کہ حکومت غفلت برت رہی ہے ۔ حکومت چند علاقوں میں تو امدادی اشیاء بھیج رہی ہے لیکن پورا پشتون بیلٹ حکومتی امداد سے محروم ہے تاحال امدای سامان پشتون علاقوں میں نہیں بھجوایا گیا ۔

یہ بھی پڑھیں
1 of 8,917

میں بلوچستان 24 کے توسط سے بین الاقوامی امدادی ایجنسوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ آ کر خشک سالی سے پیدا ہونے والی ابتر صورتحال کا جائزہ لیں .
سینٹ کی قائمہ کمیٹی کا حالیہ جو اجلاس ہوا اس اجلاس میں ہم نے ماضی میں جو بڑے بڑے منصوبے منظور کرائے تھے جن میں ہم نے بڑے ڈیم بنانے تھے جن میں بندعزیز خان ڈیم اور علق ڈیم شامل تھا اس پر کمیٹی نے کٹ لگایا اور اسے نکال دیا پی ایس ڈی پی سے جو ایک خطرناک بات ہے ، وفاقی حکومت نے اس کے علاوہ اور بھی منصوبے نکالے یقیناَ جو خشک سالی اور قحط کی صورتحال ہے یاد رہے قحط سے بھوک افلاس ، بیماریاں اور اموات ہوتی ہیں اور یہ سب خشک سالی سے جنم لیتے ہیں اور یہ ایک المناک صورتحال ہوگی
ہمارے حکومت نے پانچ بجٹ پیش کئے اور ہمارے کام زمین پر نظر آرہے ہیں،چمن اور لورالائی میں جو کام ہوئے تاریخ میں ان کی نظیر نہیں ملتی اسی طرح پشین، ہرنائی اور کوئٹہ میں ہم نے کام کئے ۔ جب جنوری دوہزار اٹھارہ میں ہماری حکومت ختم ہوئی اور چھ ماہ کیلئے جو حکومت آئی جب انہوں نے پی ایس ڈی پی تیار کی دوہزار اسکیموں کے بجائے اس کو ساڑھے چار ہزار اسکیموں تک محدود
اٹھاسی ہزار ارب روپے کا انہوں نے ڈیویلپمنٹ کی پی ایس ڈی پی بنائی جس میں باسٹھ ارب روپے خسارے کا بجٹ تھا، اب جب یہ حکومت آئی اور یہ کہہ رہی ہے کہ ہمارے پاس تو پیسہ ہے نہیں اور یہاں تک ملازمین کو دینے کیلئے بھی پیسہ نہیں ہے اس میں ہمارے حکومت کا کوء عمل دخل نہیں ہے ہمارے دور حکومت میں جو بجٹ پاس ہوئے جون تک ہم نے وہ تمام کام کئے ہم نے ترقیاتی کام کئے اور سب کچھ زمین پر نظر آرہے ہیں ۔ ہم نے وفاق سے اس وقت بہت بڑے ڈیمز بڑی تعداد میں منظور کروائے کوئٹہ کیلئے سو ڈیموں کا منصوبہ تھا اسی طرح صوبے کے ہر ضلعے کیلئے بڑے ڈیم منظور کروائے مانگی ڈیم پر کام شروع ہوچکا ہے ، ہمارے منصوبوں میں برج عزیز خان ڈیم اور علق ڈیم تھا اسی طرح پٹ فیڈر سے کوئٹہ تک پانی کا منصوبہ شامل کیا ، کوئٹہ ماس ٹرانزٹ ٹرین کا منصوبہ شامل کیا لیکن موجودہ حکومت نے ہمارے دور کے چار منصوبوں پر پابندی لگا دی اس کو ختم کیا ان پر کٹ لگایا ہم نے جو منصوبے منظور کروائے تھے ان پر وہ لوگ کٹ لگا رہے ہیں اور ان کو پی ایس ڈی پی سے نکال دیا ہے،بعد میں جو حکومتیں آئی ہیں ایک جو چھ ماہ کی حکومت آئی پھر نگران حکومت آئی اور چھ ماہ سے ایک اور حکومت آئی ان حکومتوں کی ناقص کارکردگی اور ان کی ڈیویلمپنٹ کی جو ناقص پالیسی ہے اس وجہ سے ترقی کا کوئی کام نہیں ہورہا ہے.

دوہزار اٹھارہ کے انتخابات بوگس اور جعلی انتخابات تھے اپنی مرضی کی پارٹی کو مرکز اور صوبے میں جتوایا گیا اور یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے اور سب لوگ جانتے ہیں کہ ان انتخابات کو ملک بھر نے یکسر مسترد کردیا چھ میہنے ہوگئے ابھی تک ترقی کا ایک کام بھی نہیں ہوا ہے ، لوگ دعائیں کررہے ہیں کہ ماضی کی حکومت آجائے۔

موجودہ دونوں حکومتیں ناکام ہیں چاہیے وہ وفاق میں ہو یا صوبے میں عوام چیخ رہے ہیں ڈالر ایک سوپچاس تک پہنچ گیا اشیاء خوردونوش آسمان سے باتیں کررہی ہیں پٹرول اور گیس مہنگا ہوا ادویات پندرہ فیصد مہنگی ہوگئیں جب چیزیں مہنگی ہوتی ہیں تو کرائے بڑھتے ہیں جب کرائے بڑھتے ہیں تو چیزوں کی قیمتی لامحالہ ایک دم بڑھ جاتی ہیں امن وامان کی صورتحال ابتر ہے ۔ کوئٹہ میں ایک ماہ کا عرصہ ہوا ڈاکٹر شیخ ابراھیم خلیل اغواء ہوئے ان کا کوئی اتاپتہ نہیں اسی طرح چمن اور لورالائی میں پے درپے واقعات ہوئے قلعہ سیف اللّٰہ اور پشین میں بھی واقعات رونما ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ حکومت بالکل ناکام ہے ان کو کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا کہ حکومت چلانے کا طریقہ کیا ہوتا ہے، دونوں حکومتوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے یہ عوام دشمن حکومتیں ہیں، عوام اور پارٹیاں اس حکومت کے خلاف اٹھنے پر مجبور ہیں

صوبے کی روایات رہی ہے کہ جب کسی سینٹر ریٹائرمنٹ سے پہلے انتقال ہوجائے ہو تو اسکے جگہ اگر کوئی الیکشن لڑرہا ہو تو اس کے مقابلے میں کوئی امیدوار کھڑا نہیں ہوتا تھا اور اس کی مثال آغاشہباز ہے جب ان کا انتقال ہوا تو اس کے جگہ ان کے بھائی نے الیکشن لڑا تو اس کے مقابلے میں کس نے بھی الیکشن نہیں لڑا سب پارٹیوں نے اس کی حمایت کی چاہیے حزب اختلاف ہو یا حزب اقتدار اس لیے ہم نے بھی سب پارٹیوں کو یہی کہا کہ اس روایات کو برقرار رکھیں اور سردار اعظم موسی خیل کی انتقال سے خالی سینٹ کی سیٹ پر ان کے بیٹے سردار حنیف کی حمایت کریں تاکہ روایت برقرار رہے لیکن ہماری بات نہیں مانی گئی اور وہ الیکشن پر گئے اور منظورکاکڑ کامیاب ہوئے.

بحثیت ممبر اسمبلی اس بات کو اسمبلی پر اٹھاؤنگا کہ نوجوان صوبے کی آبادی کا بہت بڑا حصہ ہیں اور ہمارا مستقبل نوجوان ہے لیکن بیروزگاری کا شرح بہت زیادہ وفاقی اور صوبائی حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرے اور ان کیلئے پالیسی بنالے

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.