ویب ڈیسک
افریقی ملک روانڈا میں ڈیڑھ سو ملکوں نے عالمی تپش میں اضافہ روکنے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔
اس وقت اوسط عالمی درجۂ حرارت 15 ڈگری سیلسیئس ہے، لیکن ارضیاتی ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں اس میں کمی بیشی ہوتی رہی ہے۔
تاہم ماضی میں ہونے والی تبدیلیوں کے مقابلے پر درجۂ حرارت میں ہونے والی موجودہ تبدیلی بہت تیزی سے رونما ہو رہی ہے۔ سائنس دانوں کو تشویش ہے کہ انسانوں کے ہاتھوں کی جانے والی اس برق رفتار تبدیلی سے مستقبل میں زمین کے موسم پر شدید اثرات مرتب ہوں گے۔
گرین ہاؤس اثر کیا ہے؟
گرین ہاؤس اثر اس قدرتی عمل کو کہا جاتا ہے جس کی مدد سے زمین سورج سے حاصل شدہ توانائی کو مقید کر لیتی ہے۔ سورج سے آنے والی حرارت روشنی کی شکل میں زمین کی سطح سے ٹکرانے کے بعد منعکس ہو کر واپس خلا میں بکھر جاتی ہے، تاہم کرۂ ہوائی میں موجود گیسیں اس حرارت کے کچھ حصے کو جذب کر لیتی ہیں، جس سے کرۂ ہوائی کا نچلا حصہ اور زمین کی سطح دونوں گرم ہو جاتے ہیں۔
اگر یہ عمل نہ ہوتا تو اس وقت زمین 30 درجہ زیادہ ٹھنڈی ہوتی، اور اس پر زندگی گزارنا بہت مشکل ہو جاتا۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انسان کارخانوں اور زراعت کے ذریعے گرین ہاؤس گیسیں فضا میں داخل کر کے قدرتی گرین ہاؤس اثر کو بڑھاوا دے رہا ہے، جس سے درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے۔ اس عمل کو عالمی تپش یا ماحولیاتی تبدیلی کہا جاتا ہے۔
سب سے اہم گرین ہاؤس گیس پانی کے بخارات ہیں، لیکن یہ فضا میں چند دن ہی باقی رہتے ہیں۔ اس کے مقابلے پر کاربن ڈائی آکسائیڈ زیادہ لمبے عرصے تک برقرار رہتی ہے۔
انسان قدرتی ایندھن جلا کر اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے والے جنگلات کاٹ کر فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اضافہ کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ وہ نائٹرس آکسائیڈ اور میتھین بھی خارج کر رہا ہے، تاہم ان کا مجموعی اثر کم ہے۔
1750 میں آنے والے صنعتی انقلاب کے بعد فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں 30 فیصد، جب کہ میتھین کی مقدار میں 140 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت فضا میں جتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے، پچھلے آٹھ لاکھ سالوں میں کبھی نہ تھی۔
عالمی حدت کے شواہد کیا ہیں؟
درجۂ حرارت کے ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ گذشتہ سو سالوں میں دنیا کے اوسط درجۂ حرارت میں 0.8 درجے کا اضافہ ہوا ہے۔ اس سے میں 0.6 درجے فیصد اضافہ پچھلے تین عشروں میں دیکھنے میں آیا ہے۔
مصنوعی سیاروں سے حاصل شدہ ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ حالیہ عشروں میں سمندر کی سطح تین ملی میٹر سالانہ اونچی ہو گئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پانی گرم ہو کر پھیل جاتا ہے۔
تاہم ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ پہاڑوں پر واقع گلیشیئر اور قطبی برف کی تہہ پگھل رہے ہیں۔ مصنوعی سیاروں سے لی گئی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ قطبی برف میں ڈرامائی کمی واقع ہوئی ہے۔
اس کے علاوہ جانوروں اور پودوں کے رویوں میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ اب پھول وقت سے پہلے کھل جاتے ہیں اور جانوروں کی ہجرت اور رویے میں بھی فرق پڑا ہے۔
عالمی حدت میں وقفہ؟
حالیہ برسوں میں اس بات پر خاصی بحث ہوئی ہے کہ عالمی تپش رک گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 1998 کے بعد سے کوئی قابلِ لحاظ عالمی تپش نظر نہیں آئی، حالانکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں اضافہ مسلسل جاری ہے۔
سائنس دانوں اس کی مختلف توجیہات پیش کرتے ہیں:
•سورج سے آنے والی توانائی میں کمی
•فضا میں بخارات کی مقدار میں کمی
•سمندر کا گرمائش جذب کر لینا
تاہم اس بارے میں اختلاف ہے کہ اس تعطل کا اصل میکانزم کیا ہے۔
ماحولیاتی سائنس دان کہتے ہیں کہ یہ تعطل موسمیاتی تبدیلی کے صرف ایک جزو یعنی زمینی سطح کے اوسط درجۂ حرارت میں واقع ہوا ہے، لیکن دوسرے جزو یعنی برف کا پگھلاؤ اور پودوں اور جانوروں کے رویے میں تبدیلی، سے ظاہر ہوتا ہے کہ زمین بدستور گرم ہوتی چلی جا رہی ہے۔
مستقبل میں زمین کتنی گرم ہو جائے گی؟
بین الاقوامی پینل برائے ماحولیاتی تبدیلی نے 2013 میں ایک تخمینہ پیش کیا تھا جس میں کمپیوٹر ماڈل پر مبنی مختلف پیش گوئیاں کی گئی تھیں۔ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ 21ویں صدی کے اختتام تک عالمی درجۂ حرارت میں 1.5 ڈگری کا اضافہ ممکن ہے۔
عام طور پر دو ڈگری تپش کو خطرناک عالمی تبدیلی کی دہلیز سمجھا جاتا ہے۔
اگر ہم فوری طور پر گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج روک بھی دیں تب بھی سائنس دان کہتے ہیں کہ ان کے اثرات خاصے عرصے تک جاری رہیں گے کیوں کہ ماحولیاتی نظام کے مختلف حصے، مثلاً پانی اور برف کی تہیں، درجۂ حرارت میں تبدیلوں کا ردِعمل دکھانے میں سینکڑوں برس لگاتے ہیں۔
ہم پر کیا اثر پڑے گا؟
مکمل اثرات غیریقینی ہیں، البتہ اندازہ ہے کہ اس سے صاف پانی کی فراہمی میں کمی واقع ہو گی، خوراک کی پیداوار میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوں گی، اور سیلابوں، طوفانوں، قحط سالی اور گرمی کی لہروں میں اضافے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر اموات واقع ہو سکتی ہیں۔

سائنس دان کہتے ہیں کہ مجموعی طور پر بارشوں میں اضافہ ہو جائے گا لیکن سمندر سے دور علاقوں میں خشک سالی ہو گی اور موسمِ گرما کا دورانیہ بڑھ جائے گا۔
اس کے علاوہ سمندر کی سطح میں اضافے کی وجہ سے طوفان اور سیلاب آنے کا خطرہ بڑھ جائے گا، تاہم دنیا کے مختلف علاقوں میں مختلف اثرات دیکھنے کو ملیں گے۔
زیادہ اثر غریب ملکوں پر پڑے گا جہاں اس تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے وسائل کی کمی ہے۔
موسم یک لخت تبدیل ہونے کی وجہ سے جانداروں کی بہت سی نسلیں ناپید ہو جائیں گی۔ عالمی ادارۂ صحت نے خبردار کیا ہے کہ ملیریا، پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور قحط سالی سے لاکھوں لوگ موت کی آغوش میں چلے جائیں گے۔
اس کے علاوہ سمندروں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے جذب ہونے سے ان کی تیزابیت بڑھ جائے گی۔ اس سے سمندری حیات اور کورل ریف پر مضر اثرات مرتب ہوں گے۔
عالمی ماحولیاتی معاہدہ
زمین کے ماحول کے تحفظ کے لیے دنیا کے ڈیڑھ سو سے زیادہ ممالک نے خاص قسم کی گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کم کرنے پر اتفاق کیا ہے جنھیں ہائیڈروفلورو کاربنز کہا جاتا ہے۔
ہائیڈرو فلورو کاربنز وہ گیسیں ہیں جو فریزروں، ایئر کنڈیشنروں اور سپرے میں بھی استعمال ہوتی ہیں۔ اور یہ عالمی حدت میں اضافے کی ایک اہم وجہ ہیں۔
روانڈا میں ہونے والے اجلاس میں طے پانے والے اس نئے معاہدے کو’تاریخی’ قرار دیا جا رہا ہے۔
Thanks to BBC Urdu