ڈیرہ مراد جمالی) نمائندہ بلوچستان24
حکومت ایک منظم و باقاعدہ طریقہ کار اور نظام کے تحت چلانا آسان کام نہیں۔ بلوچستان کا معاملہ دیگر صوبوں سے مختلف ہے بلوچستان میں نظر آنے والی پسماندگی ہمارے اپنے ہاتھوں سے ہی ہوئی ہے
یہ سارے مسائل ایسے ہیں جو قابل حل ہیں اور ہمارے اختیار میں ہیں جبکہ کچھ معاملات وفاق کے اختیار میں ہیں
2013 میں بلوچستان میں معروض وجود میں آنے والی حکومت سے عوام کی بہت سی توقعات وابستہ ہوئیں کیوں کہ اس دوران لگ بھگ 35 ارب ڈالر اس ملک میں آئے لیکن پانچ سال گزرنے کے باوجود بلوچستان میں کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی
بلوچستان میں نہ تو کوئی موٹر وے بنا نہ ڈیمز بنے کوئٹہ کا پانی مسئلہ حل ہوا نہ صوبے کے ہر ضلع میں یونیورسٹی بنی آج ہم جس مالی بحران سے دوچار ہیں وہ ماضی کے بحرانوں سے کہیں زیادہ ہے
کیونکہ جو وسائل ماضی کی حکومتوں کو حاصل تھے وہ ہمارے پاس نہیں ہم اپنی سو فیصد درستگی کا دعوی نہیں کرتے تاہم یہ واضح ہے کہ ہم نے مسائل کے حل کی ایک سمت طے کردی ہے وزیر اعلی بلوچستان نے کہا کہ حکومت پرعزم ہے کہ نصیر آباد ڈویڑن اور ضلع نصیر آباد کے مسائل کو بتدریج حل کیا جائے گا
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان ڈیرہ مراد جمالی میں قبائلی عمائدین کے اجتماع سے خطاب
جام کمال خان نے کہا کہ ڈیرہ مراد جمالی کی الاٹمنٹ کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دے کر یہاں آباد لوگوں کو مالکانہ حقوق کی فراہمی کے لئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں جس میں نصیر آباد کے دونوں اراکین اسمبلی بھی شامل ہونگے
وزیر اعلی بلوچستان جام کمال خان نے کہا ہے کہ ہمارا تعلق بلوچستان سے ہے اور اس سرزمین کا ہم پر قرض ہے لوگوں کے مسائل کا حل ہماری ذمہ داری صوبے کے ہر علاقے کے مسائل اور حالات کی نوعیت الگ الگ ہے موجودہ حکومت کی تشکیل کے چار ماہ کے اندر مختلف اضلاع کے دورے کئے اور ہمارا مقصد یہی ہے کہ اپنی کابینہ کے ساتھ صوبے کے تمام علاقوں کا دورہ کرکے مسائل کا ذاتی طور پر جائزہ لیا جائے تاکہ اعلی فورم پر ان کو اٹھانے کے لئے تمام کابینہ اراکین مسائل سے بخوبی آگاہ ہوں اور وفاقی حکومت سمیت ہر پلیٹ فارم پر ان مسائل و حالات کو بہتر طور پر پیش کرکے ان کے حل کے لئے اپنا فعال کردار ادا کرسکیں ان خیالات کا اظہار انہوں نے
رکن بلوچستان اسمبلی میر سکندر خان عمرانی نے سپاسنامہ پیش کیا جبکہ صوبائی وزراء نوابزادہ طارق خان مگسی میر سلیم خان کھوسو میر عمر خان جمالی حاجی میر محمد خان لہڑی میر سکندر خان عمرانی رکن قومی اسمبلی میر خالد خان مگسی کمشنر نصیر آباد ڈویڑن عثمان علی خان میر عبدالغفور لہڑی سمیت صوبائی محکموں کے سیکرٹریز بھی موجود تھے
وزیر اعلی بلوچستان جام کمال خان نے کہا کہ رکن بلوچستان اسمبلی میر سکندر خان عمرانی نے علاقے کے جن مسائل پر روشنی ڈالی اگر گزشتہ پانچ سال میں ان پر کام کیا جاتا تو بہت سے مسائل کا ادراک ممکن تھا عنقریب سکھر میں بلوچستان کی زرعی نہروں میں قلت آب پر قابو پانے کیلئے وزیر اعلی سندھ اور یہاں کے متعلقہ لوگوں کی موجودگی میں معاملات کو پائیدار بنیادوں پر حل کرنے کے لئے بات چیت کا عمل شروع کیا جائے گا اور قوی امید ہے ان دیرینہ مسائل کا دیرپا حل تلاش کرلیا جائے گا
بلوچستان کی زرعی نہروں کی توسیع کے لئے بھی قابل عمل منصوبے تشکیل دیں گے انہوں نے کہا کہ کچھی کینال منصوبے کو پایا تکمیل تک پہنچانے کے لئے پرعزم ہیں اور زرعی ترقی کے ان عظیم منصوبوں کو ضرور مکمل کیا جائے گا
رکن بلوچستان اسمبلی میر سکندر خان عمرانی کی جانب سے پیش کردہ تمام مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھائے جائیں گے جبکہ بجلی اور گیس سے متعلق معاملات کو وفاق کے ساتھ اٹھایا جائے گا
ایسے عملی اقدامات کرینگے جس سے بی اے پی کی حکومت پر عوام کا اعتماد بحال ہو اور عام آدمی کو ماضی کی حکومتوں اور موجودہ حکومت میں نمایاں فرق محسوس ہو سکے
خصوصا نصیر آباد ڈویڑن میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں کمی کے لئے واپڈا سے رجوع کیا جائے گا جبکہ بجلی کے معاملات سے متعلق وفاقی وزیر عمر ایوب بذات خود دورہ کرکے مسائل کے حل کے لیے اقدامات اٹھائیں گے
کابینہ فیصلے کے مطابق بلوچستان میں پندرہ سے بیس ہزار ملازمتوں پر بے روزگار نوجوانوں کی میرٹ پر بھرتی کیا جائے گا جس سے بے روزگاری پر بڑی حد تک قابو پانے میں مدد ملے گی
یہ بھی پڑھیں
اور روزگار کی فراہمی سے لوگوں کی زندگی میں نمایاں بہتری آئے گی
جام کمال خان نے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی بلوچستان کے لوگوں کو ایک اچھی و مثالی طرز حکمرانی دے گی یہ آپ کی حکومت ہے اور عوام کی توقعات پر پورا اترنے کی ہر ممکن سعی کریں گے
تقریب کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلی بلوچستان جام کمال خان نے کہا کہ موجودہ حکومت اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرکے عوامی مسائل کو بنیادی سطح پر حل کرنے کی خواہاں ہے
اسی سلسلے میں بھرتی کا عمل بھی ضلعی سطح پر ہوگا تاکہ نوجوانوں کو صوبائی دارالحکومت کوئٹہ نہ آنا پڑے
سی پیک میں بلوچستان کے صرف دو منصوبے شامل ہیں اور ان منصوبوں کا فائدہ بھی عوام کو براہ راست نہیں ہوگا
گوادر اور بلوچستان کے نام پر 35 ارب ڈالر چین اور برادر ممالک کی جانب سے دئیے گئے مگر چار ماہ قبل تک گوادر کے مکینوں کا پینے کے پانی کا مسئلہ بھی حل نہیں کیا جاسکا
اس کے علاوہ بلوچستان میں سی پیک کا ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہوا ماضی میں بہتر منصوبہ بندی سے کم از کم دس ارب روپیہ لگنا چاہیے تھا