رپورٹ: یحییٰ ریکی
بلوچستان، جو پاکستان کا سب سے بڑا اور قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے، قدرتی آفات کے سامنے ہمیشہ سے ایک نازک خطہ رہا ہے۔
سال 2022 میں آنے والے تباہ کن سیلاب نے صوبے کے کئی اضلاع کو شدید متاثر کیا اور صوبے کے بعض علاقے شدید گرمی کے باعث ہیٹ ویوز اور خشک سالی کا شکار ہے۔
خاران کے زمیندار جعفر سیاپاد: سیلاب کے سامنے جدوجہد کی داستان
بلوچستان کے ضلع خاران کے رہائشی جعفر سیاپاد، جو پیشے کے لحاظ سے زمیندار ہیں، حالیہ سالوں میں قدرتی آفات کا سامنا کر چکے ہیں۔
2022 میں آنے والے تباہ کن سیلاب نے پورے بلوچستان میں تباہی مچائی، اور اس کی زد میں خاران بھی آیا۔
یہاں کے زمینداروں کے لیے یہ ایک مشکل وقت تھا، اور جعفر سیاپاد بھی ان میں شامل تھے جنہوں نے اپنی زندگی بھر کی محنت کو بہتے پانیوں میں برباد ہوتے دیکھا۔
جعفر سیاپاد کی 20 ایکڑ پر محیط زرعی اراضی، جہاں وہ کپاس کی فصل کاشت کرتے تھے، سیلاب کی زد میں آگئی۔
ان کے بقول: کپاس کی تیار فصل جسے تیار ہونے میں چھ سے سات ماہ لگتے ہیں، اور جس پر لاکھوں روپے کے اخراجات آتے ہیں، وہ سیلاب کے پانی کے ساتھ بہہ گئی۔
“سیلابی ریلے اتنے شدید تھے کہ جو کچھ بھی سامنے آیا وہ بہہ گیا۔ ہمارے تقریباً 50 گھروں کو نقصان پہنچا، اور قیمتی سامان ضائع ہوگیا۔ ہم کھلے آسمان تلے رہ گئے”، جعفر سیاپاد نے اپنی روداد سناتے ہوئے کہا۔
ان کے لیے یہ ایک مالی تباہی ثابت ہوئی، جہاں 30 لاکھ روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔ انہوں نے اپنی زرعی اراضی کے پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے 36 لاکھ روپے کی لاگت سے دو بورنگ کنوئیں بنوائے تھے، لیکن یہ دونوں بور بھی سیلاب کے پانی میں بہہ گئے۔
یہ روداد بلوچستان کے زمینداروں کی مشکلات کی عکاسی کرتی ہے، جو ہر سال سیزن کا انتظار کرتے ہیں، محنت مشقت کرتے ہیں، اور قدرتی آفات کے باعث اپنے مالی نقصان کا سامنا کرتے ہیں۔
جعفر سیاپاد کی کہانی ان زمینداروں کی جدوجہد کی ایک مثال ہے، جو قدرتی آفات کے باوجود ہمت نہیں ہارتے اور اپنی زمین سے محبت کے ساتھ جڑے رہتے ہیں۔
یاد رہے کہ بلوچستان میں سال 1998 سے 2002 تک بلوچستان کو شدید خشک سالی کا سامنا رہا، جس کے دوران ہزاروں مال مویشی ہلاک ہوئے اور زرعی زمینیں بنجر ہو گئیں۔
سال 2018 اور 2019 میں بھی بلوچستان کے مختلف اضلاع میں پانی کی کمی کی وجہ سے خشک سالی کے اثرات دیکھے گئے، جس سے زرعی پیداوار میں نمایاں کمی آئی۔
سال 2022 کے سیلابوں نے صوبے کے 26 اضلاع کو متاثر کیا۔ تقریباً 250,000 گھروں کو نقصان پہنچا یا وہ مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔
سیلابوں کے نتیجے میں 400 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے۔ صوبے کی زرعی زمینوں پر کھڑی فصلوں کو 20 بلین روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ مال مویشیوں کی ہلاکتوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، جس سے مقامی آبادی کی معیشت پر شدید اثر پڑا۔
سال 2023 اور 2024 میں ہیٹ ویوز نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں درجہ حرارت کو 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی اوپر پہنچا دیا۔ پانی کی شدید قلت اور زرعی زمینوں کی بنجر ہونے کی وجہ سے ہزاروں ایکڑ زمین کاشت کے قابل نہیں رہی۔
مقامی آبادی کو پینے کے پانی کی کمی کا سامنا ہے، جس سے نقل مکانی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات
کلائمیٹ رسک انڈیکس 2021 کے مطابق، سن ء2000 سےء 2019 کے درمیان پاکستان شدید موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں آٹھویں نمبر پر ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں، بڑھتی ہوئی شہری کاری، ماحولیاتی انحطاط، اور تیزی سے شدید اور بڑے پیمانے پر قدرتی آفات سے متاثر ہے۔ پاکستان قدرتی خطرات جیسے خشک سالی، سیلاب، گرمی کی لہروں، شدید سردی اور زلزلوں کا شکار ہے۔
جبکہ حالیہ برسوں میں پاکستان طویل خشک سالہ سمیت کئی خطرات سے دوچاررہا۔ ء2018 سے2019تک جاری رہنے والے طویل خشک سالی کی لہرمیں 50لاکھ افرادمتاثر ہوئے۔ جس کے بعدموسم سرماکے دوران ہنگامی صورتحال سے ملک کے مغربی علاقوں میں دس لاکھ افرادمتاثرہوئے۔
بلوچستان سیلاب 2022: ایک تفصیلی
محمد یونس مینگل، انچارج پی ای او سی کے مطابق، 2022 کے سیلاب نے بلوچستان کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔ اس قدرتی آفت نے صوبے کو شدید جانی و مالی نقصان پہنچایا۔
جانی نقصان
اموات: 257 افراد نے اپنی جان گنوائی۔
زخمی: 164 افراد زخمی ہوئے۔
مالی نقصان
اس دوران 61718 گھر متاثر ہوئے جن میں سے 17608 مکمل طور پر تباہ ہوگئے اور 44110 کو جزوی نقصان پہنچا۔
سیلاب سے 1500 کلومیٹر سے زائد سڑکیں اور 18 پل تباہ ہوگئے جس سے صوبے کا رابطہ منقطع ہوگیا۔
زراعت: 200811 ایکڑ پر محیط تیار فصلیں تباہ ہوگئیں۔
مویشی: 2 لاکھ 15 ہزار 9 سو 36 مویشی سیلاب میں بہہ گئے۔
امدادی کارروائیاں
پی ڈی ایم اے نے متاثرین کی مدد کے لیے فوری طور پر ریسکیو آپریشن شروع کیا۔ اس دوران سیلاب میں پھنسے ہوئے 300 خاندانوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔
قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے غیر سرکاری اداروں کا کردار
آزات فاؤنڈیشن ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جو بلوچستان میں قدرتی آفات سے متاثرہ افراد کی بحالی اور خشک سالی کے اثرات سے نمٹنے کے موضوعات پر کام کرتے ہیں
ادارے کے سربراہ سربراہ زاہدمینگل نے بلوچستان 24 سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 2022میں آنیوالے سیلاب کے دوران تربت اورپنجگورمیں لوگوں کوبہت زیادہ نقصان پہنچا،
غیرسرکاری تنظیم کی جانب سے سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ کھجورکے تیار فصلات تباہ ہوگئے اوراس مد میں زمینداروں کوپچاس سے ساٹھ کروڑروپے کے لگ بھگ مالی خسارے کا سامنا رہا۔
جعفر سیاپاد، جو خاران کے ایک زمیندار ہیں، نے صوبائی حکومت کے وعدوں اور دعووں پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈپٹی کمشنر خاران کی سربراہی میں ایک ٹیم نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور نقصانات کا جائزہ لیتے ہوئے ایک رپورٹ بھی مرتب کی۔ لیکن جعفر سیاپاد کے مطابق، ان سمیت دیگر متاثرین کو امداد کے نام پر ایک سکہ تک نہیں ملا۔
جعفر سیاپاد نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ایک سابق رکن صوبائی اسمبلی نے حکومتی فنڈز کو من پسند افراد میں تقسیم کیا، جبکہ اصل حقداروں کو نظرانداز کر دیا گیا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ کاغذی کارروائیوں کے ذریعے محض اعلانات کیے گئے، لیکن عملی طور پر بحالی کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا۔
سیلاب کے بعد بے گھر ہونے والے لوگوں کو آج تک حکومتی امداد سے کوئی نیا گھر تعمیر نہیں کیا گیا، اور لوگ اپنی مدد آپ کے تحت بحالی کا کام کرنے پر مجبور ہیں۔ زمینداروں اور عام عوام کی یہ مایوسی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ صوبائی حکومت کی جانب سے آفت زدہ علاقوں میں بحالی کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ اگر اس صورت حال پر بروقت قابو نہ پایا گیا تو نہ صرف متاثرہ افراد کی مشکلات میں اضافہ ہوگا بلکہ ان کا حکومت پر سے اعتماد بھی ختم ہو سکتا ہے۔