رپورٹ: مرتضیٰ زیب زہری
بلوچستان پاکستان کا ایک وسیع اور متنوع علاقہ ہے جو قدرتی آفات کے حوالے سے خاصا متاثر رہتا ہے۔ یہاں کی جغرافیائی خصوصیات، جیسے پہاڑی سلسلے، صحرا، اور دریا، اس خطے کو خشک سالی اور سیلاب جیسے چیلنجز کا شکار بناتے ہیں۔
خشک سالی بلوچستان میں ایک مستقل مسئلہ ہے، خاص طور پر جنوبی اور وسطی علاقوں میں۔ یہ زراعت اور پانی کی فراہمی پر منفی اثر ڈالتی ہے، جس کی وجہ سے مقامی آبادی کو غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
دوسری جانب، بارشوں کے موسم میں بلوچستان میں سیلاب بھی ایک خطرہ بن جاتا ہے۔ زیادہ بارشیں بعض اوقات زمین کھسکنے اور دریاؤں میں طغیانی کا باعث بنتی ہیں ۔
محمد امین ایک محنتی گلہ بان ہیں جو بلوچستان کے ضلع نوشکی میں رہتے ہیں۔ ان کا تعلق ایک معمولی خاندان سے ہے، اور وہ اپنی روزی روٹی کے لیے گلہ بانی اور چھوٹے پیمانے پر کاشتکاری کرتے ہیں۔ ان کی زندگی کا دارومدار ان کی بکریوں اور کھڑی فصلوں پر ہے، جو ان کی محنت اور لگن کا نتیجہ ہوتی ہیں۔
لیکن گزشتہ سالوں میں، جب سے خشک سالی نے بلوچستان کو اپنی لپیٹ میں لیا، محمد امین کی زندگی میں ایک نیا باب شروع ہوا۔
یاد رہے کہ بلوچستان میں سال 1998 سے 2002 تک بلوچستان کو شدید خشک سالی کا سامنا رہا، جس کے دوران ہزاروں مال مویشی ہلاک ہوئے اور زرعی زمینیں بنجر ہو گئیں۔
سال 2018 اور 2019 میں بھی بلوچستان کے مختلف اضلاع میں پانی کی کمی کی وجہ سے خشک سالی کے اثرات دیکھے گئے، جس سے زرعی پیداوار میں نمایاں کمی آئی
اس علاقے میں بارشیں بہت کم ہوئیں، جس کی وجہ سے زمین کی زرخیزی متاثر ہوئی۔ ان کے کھیت سوکھنے لگے، اور پانی کی شدید کمی نے ان کے لیے مشکلات پیدا کر دیں۔
دورسری جانب بلوچستان کے ضلع صحبت پور میں سال 2022 کے سیلاب نے ایک بڑے پیمانے پر تباہی مچائی، جس سے مقامی کسان محمد عارف کھوسہ کی زندگی بھی متاثر ہوئی۔ محمد عارف، جو کہ زراعت سے وابستہ ہیں، نے اپنی محنت سے کھیتوں میں فصلیں اگائی تھیں، مگر سیلاب نے ان کی محنت کا تمام پھل برباد کر دیا۔
محمد عارف نے کہا، “پچھلے کئی مہینوں کی محنت ایک لمحے میں بہہ گئی۔ میرے کھیتوں میں تیار فصلیں تھیں، لیکن اب کچھ بھی نہیں بچا۔ یہ میری اور میرے خاندان کی زندگی کا سوال ہے۔”
سال 2022 کے سیلابوں نے صوبے کے 26 اضلاع کو متاثر کیا۔ تقریباً 250,000 گھروں کو نقصان پہنچا یا وہ مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔
سیلابوں کے نتیجے میں 400 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے۔ صوبے کی زرعی زمینوں پر کھڑی فصلوں کو 20 بلین روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ مال مویشیوں کی ہلاکتوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، جس سے مقامی آبادی کی معیشت پر شدید اثر پڑا۔
سال 2023 اور 2024 میں ہیٹ ویوز نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں درجہ حرارت کو 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی اوپر پہنچا دیا۔ پانی کی شدید قلت اور زرعی زمینوں کی بنجر ہونے کی وجہ سے ہزاروں ایکڑ زمین کاشت کے قابل نہیں رہی۔
مقامی آبادی کو پینے کے پانی کی کمی کا سامنا ہے، جس سے نقل مکانی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
کلائمیٹ رسک انڈیکس 2021 کے مطابق، سن ء2000 سےء 2019 کے درمیان پاکستان شدید موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں آٹھویں نمبر پر ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں، بڑھتی ہوئی شہری کاری، ماحولیاتی انحطاط، اور تیزی سے شدید اور بڑے پیمانے پر قدرتی آفات سے متاثر ہے۔ پاکستان قدرتی خطرات جیسے خشک سالی، سیلاب، گرمی کی لہروں، شدید سردی اور زلزلوں کا شکار ہے۔
جبکہ حالیہ برسوں میں پاکستان طویل خشک سالہ سمیت کئی خطرات سے دوچاررہا۔ ء2018 سے2019تک جاری رہنے والے طویل خشک سالی کی لہرمیں 50لاکھ افرادمتاثر ہوئے۔ جس کے بعدموسم سرماکے دوران ہنگامی صورتحال سے ملک کے مغربی علاقوں میں دس لاکھ افرادمتاثرہوئے۔
محمد یونس مینگل، انچارج پی ای او سی کے مطابق، 2022 کے سیلاب نے بلوچستان کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔ اس قدرتی آفت نے صوبے کو شدید جانی و مالی نقصان پہنچایا۔
اموات: 257 افراد نے اپنی جان گنوائی۔
زخمی: 164 افراد زخمی ہوئے۔
اس دوران 61718 گھر متاثر ہوئے جن میں سے 17608 مکمل طور پر تباہ ہوگئے اور 44110 کو جزوی نقصان پہنچا۔
سیلاب سے 1500 کلومیٹر سے زائد سڑکیں اور 18 پل تباہ ہوگئے جس سے صوبے کا رابطہ منقطع ہوگیا۔
زراعت: 200811 ایکڑ پر محیط تیار فصلیں تباہ ہوگئیں۔
مویشی: 2 لاکھ 15 ہزار 9 سو 36 مویشی سیلاب میں بہہ گئے۔
پی ڈی ایم اے نے متاثرین کی مدد کے لیے فوری طور پر ریسکیو آپریشن شروع کیا۔ اس دوران سیلاب میں پھنسے ہوئے 300 خاندانوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔
آزات فاؤنڈیشن ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جو بلوچستان میں قدرتی آفات سے متاثرہ افراد کی بحالی اور خشک سالی کے اثرات سے نمٹنے کے موضوعات پر کام کرتے ہیں
ادارے کے سربراہ سربراہ زاہدمینگل نے بلوچستان 24 سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 2022میں آنیوالے سیلاب کے دوران تربت اورپنجگورمیں لوگوں کوبہت زیادہ نقصان پہنچا،
غیرسرکاری تنظیم کی جانب سے سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ کھجورکے تیار فصلات تباہ ہوگئے اوراس مد میں زمینداروں کوپچاس سے ساٹھ کروڑروپے کے لگ بھگ مالی خسارے کا سامنا رہا۔