“سیلابی تباہی: مکران میں کجھور کی فصلیں برباد، مقامی معیشت کو خطرات کا سامنا”

رپورٹ: مرتضیٰ زیب زہری

بلوچستان کے ضلع کیچ کے کسان اللہ بخش بلوچ کا کہنا ہے کہ 2022 کے سیلاب نے ان کی زندگی کا معاش چھین لیا، جس کے نتیجے میں انہیں لاکھوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔

اللہ بخش، جو کہ کجھور کی کاشت کرتے ہیں، نے بتایا کہ ان کے کھیتوں میں تیار فصلیں سیلاب کی نظر ہو گئیں، جس سے ان کی محنت کا تمام پھل برباد ہوگیا۔

انہوں نے کہا، “ہماری زندگی کا دارومدار اس فصل پر تھا، مگر ایک رات کی بارش نے سب کچھ بہا دیا۔ اب ہمیں مالی مشکلات کا سامنا ہے، اور ہم اس نقصان کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔”

سیلاب نے علاقے کے دیگر زمینداروں پر بھی منفی اثر ڈالا ہے، جو اب اپنے کاروبار کی بحالی کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ اللہ بخش نے مزید کہا کہ مقامی حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں کو چاہیے کہ وہ متاثرین کی مدد کے لیے فوری اقدامات کریں۔

حکومت کی جانب سے امدادی سرگرمیاں شروع کی گئی ہیں، مگر بہت سے متاثرین اب بھی مالی مدد کے منتظر ہیں۔ اللہ بخش کا کہنا ہے کہ اگر فوری مدد فراہم نہ کی گئی تو کئی خاندان مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں۔

یہ صورت حال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ قدرتی آفات کا زراعت پر کتنا گہرا اثر پڑتا ہے، اور اس مسئلے کے حل کے لیے طویل مدتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

مکران ڈویژن کے ضلع کیچ اور پنجگورمیں زیادہ تر کسانوںکاانحصار کجھور کی فصل پرہوتاہے، مگرمون سون کی بارشوں نے ان سے یہ ذریعہ معاش چھین لیاہے۔

حاجی مولابخش نے بتایاکہ سیلاب میں90فیصدکھجورکے باغات تباہ ہوگئے جس کی وجہ سے کسانوں کو لاکھوں روپے کا نقصان ہوا،10سے15فیصدفصلیں رہ گئے اوراس سے بنیادی اخراجات بھی پوری نہیں ہوسکتے۔

بلوچستان میں75فیصدافرادکاذریعہ معاش کھیتی باڑی اورزمینداری کے شعبے سے منسلک ہے مگرحالیہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بے وقت کی تیزبارشوں کے بعدبیشتراضلاع میںسیلاب کی صورتحال پیداہوگئی ہے جس کی وجہ سے زراعت کے شعبے سے منسلک کسانوں اورمزدوروںکو مالی مشکلات درپیش ہیں۔

محکمہ زراعت کیچ کے اعدادوشمارکے مطابق ضلع میں15ہزار8سو85کسان رجسٹرڈ ہیں، جو کہ بلیدہ، تربت، ہوشاب، مندودیگر علاقوں میں کاشتکاری کرتے ہیں۔ ضلع کیچ کے کسانوں کامعاشی
انحصارکھجورکی فصل پرہے، جواپنے ذائقے اوراعلیٰ معیارکی وجہ سے کافی مشہورہیں۔

اعدادوشمارکے مطابق کیچ میں کجھور کی سالانہ پیداوار 1 لاکھ 50 ہزار ٹن کے لگ بھگ ہے ۔گزشتہ سال مون سون کی بارشوں کی وجہ سے دیگرفصلوں کی طرح کھجورکے باغات بھی کافی متاثرہوئے ہیں جس کی وجہ سے کسانوں کوبھاری مالی خسارے کاسامناکرناپڑاہے۔

یہ بھی پڑھیں
1 of 8,896

کیچ میں کجھور کی فی ایکڑپیداوار 6ہزار5سو90 کلوگرام ہے جو گزشتہ سال مون سون بارشوں کی نذر ہوگئی۔

محکمہ زراعت کے ذرائع کے مطابق ضلع کیچ میں24ہزار8سو27 ایکٹر رقبے پرکھجورکے باغات موجودہیںتاہم 2022میں آنیوالے طوفانی بارشوںکے دوران 18ہزار8سو85 ایکٹر کھجورکی فصل سیلابی ریلے کی وجہ سے تباہ ہوگئی۔ نقصان کا تخمیہ 4ہزار400 ملین بنتا ہے ۔

محکمہ زراعت کے اعدادوشمارکے مطابق ضلع کیچ میںکھجورکی 105اقسام پائی جاتی ہیں جوذائقے اورمعیارکے حوالے سے منفردہیں، یہ کھجورمختلف علاقوں میں کاشت کی جاتی ہیں۔

اعدادوشمارکے مطابق” بیگم جنگی“کھجورکی طلب زیادہ ہے جوپہلے نمبرپرہے اورکھجورکی یہ قسم 10ہزار8سو ایکٹر پرکاشت کی جاتی ہےاورمجموعی طورپراس 18لاکھ57ہزار6سودرخت ہیں جبکہ بیگم جنگی کی سالانہ پیداوار65ہزار16 ٹن ہے اور ہر درخت سے اوسطاً 35 کلو گرام کجھور پیدا ہوتی ہے۔

دوسرے نمبر پہ 1ہزار6سو45 ایکٹر پرپھیلے ہوئے ”حسینی“ اقسام کے کجھورہیں، ان کی سالانہ پیداوار 9ہزار9سو3 ٹن ہے اوراس کے درختوں کی تعداد 2لاکھ82ہزار8سو40 ہے۔

اسی طرح ہلینی 8ہزار4سو28 اور گوک ناہ (کھجورکی اقسام)7ہزار7سو75 ٹن کےساتھ بالترتیب تیسرے اور چوتھے نمبر پر ہیں اور ان دونوں اقسام کے کجھور کی فی درخت 40کلو گرام پیداوارہے۔جبکہ دَشتیاری، کونزن آباد، مزاتی، شکری اور جدگالی کھجورکی اقسام بھی منفردہیں۔

ملک بھر میں کجھور کی سب سے زیادہ کاشت مکران کے دو اضلاع کیچ اورپنجگور میں کی جاتی ہے، 2005۔2006 کے ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں کجھور کے باغات 48136 ایکٹر اور سالانہ پیدوار 252317 ٹن ، سندھ میں 26681 اور سالانہ 192810 ٹن،پنجاب میں 5797 ایکٹر اور 42580 ٹن اور خیبر پخنوانخواہ میں کجھور کے باغات 1377 ایکٹر پر پھیلے ہوئے ہیں اور سالانہ پیداوار 8869 ٹن ہے۔

مقامی ڈیٹ پروسسینگ کمپنی کے مالک ومعروف تاجرمقبول عالم نوری کاکہناہے کہ کولڈ اسٹوریج نہ ہونے کی وجہ سے دونوں اضلاع کے کسان اونے پونے داموں پر کجھور فروخت کرتے ہیں۔

سابق ادوار میں کیچ میں ایک ڈیٹ پروسسنگ کولڈ اسٹوریج تعمیر کیا گیا، جہاں ایک ہزار ٹن کجھور اسٹور کرنے کی گنجائش ہے جبکہ مکران بھر میں سالانہ ڈھائی سے تین لاکھ ٹن کجھور پیدا ہوتی ہے۔ مقبول عالم نوری کے مطابق اس اسٹوریج سے پہلے سکھر اور خیرپور کے تاجر مقامی کسانوں سے فی من کجھور 800 سو سے نو سو کے درمیان خریدتے تھے

اب مقامی کسان ڈھائی ہزار سے تین ہزار تک فی من کجھور فروخت کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر مکران میں ڈیٹ پروسسنگ یونٹ بناکر نہ صرف مکران کی کجھور کو عالمی منڈیوں تک پہنچایا جاسکتا ہے بلکہ مقامی زمین داروں کو ہر سال لاکھوں روپیہ اضافی منافع مل سکتا ہے۔

ان کے ساتھ مطابق مکران کی کجھور کوالٹی کے حوالے سے ہمسایہ ملک ایران کے کجھور سے زیادہ پائیدار ہے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.