بلوچستان ،ایک تحصیل کیلئے 122ڈیمز ،ایک ارب 26کروڑ کی منظوری کا انکشاف

0

ویب ڈیسک
کوئٹہ ۔۔۔
بلوچستان کے وسائل کا استعمال کہاں اور کیسے ہورہا ہے اس کا انکشاف بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کے دوران ہوا

اپوزیشن رکن سردار عبدالرحمان کھیتران نے پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان کے صرف ایک ضلع کی تحصیل میں 122 ڈیمز تعمیر کرنے کے بارے میں اخبارات میں اشتہارات دیئے گئے
ایک ارب26 کروڑ روپے سے زائد فنڈز مختص کئے ہیں اور شاید قلعہ عبداللہ کو خشک سالی کی وجہ سے آفت زدہ قرار دے کر 122 ڈیمز دیئے گئے ہمارے تحفظات ہے

یہ ڈیم جس نے بھی دیئے ہیں اس کے خلاف ہم احتجاج ریکارڈ کر رہے ہیں جس پر انہوں نے احتجاجاً اسپیکر ڈائس کے قریب جا کر زمین پر بیٹھ کر احتجاج کیا
انجینئر زمرک خان اچکزئی نے بھی رکن صوبائی اسمبلی سردار عبدالرحمان کھیتران کے ساتھ احتجاج میں شریک ہو کر زمین پر احتجاج کیا

ایک تحصیل کو122 ڈیم دینا حکومت کی کارکردگی میرٹ کے حوالے سے بات واضح ہو گئی ہے کہ وہ میرٹ پر کتنے کام کر رہے ہیں،زمرک اچکزئی

اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے کہا کہ ہمیں پتہ ہے کہ حکومت نے پچاس سال کے دوران کچھ نہیں کیا اور ایک تحصیل کو122 ڈیمز دے کر پورے بلوچستان کی حق تلفی کی گئی
ڈیموں کے نام پر کرپشن ہو جائے گی اور بلوچستان میں یہ تاریخی کرپٹ حکومت ہے پیمرا اور دیگر ادارے کہا ہے کہ جو ان چیزوں کو دیکھیں گے صرف کرپشن کے لئے 122 ڈیم دیئے گئے ہیں اور فوری طور پر ٹینڈر کینسل کر کے اس پر حکومتی کمیٹی بنائی جائے

رکن صوبائی اسمبلی مفتی گلاب کاکڑ نے کہا کہ ہمارے علاقے میں باغات تباہ ہو چکے ہیں اور پورے ژوب ڈویژن کو 5 ڈیم نہیں دیئے گئے ایک تحصیل کو122 ڈیمز دینا کہاں کا انصاف ہے

رکن صوبائی اسمبلی نصراللہ زیرے نے کہا کہ جو اراکین احتجاج کر رہے ہیں وہ قواعد وضوابط کے خلاف ہے اگر واقعی اراکین کو تحفظات ہے توہ تحریک التواء لا ئیں
جس پر اسپیکر بلوچستان اسمبلی راحیلہ حمید درانی نے کہا کہ ہر کوئی کسی بھی نوعیت کے مسئلے پر بات کر سکتا ہے آپ نشست پر بیٹھیں ہمیں نہ بتایا جائے

سابق وزیراعلیٰ رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ محکمہ تعلیم اور ڈیموں کے بارے میں جو سوالات اٹھائے گئے ہیں ہمیں معلوم نہیں
ہمیں معلوم نہیں تا ہم وزراء کابینہ کے اجلاس کے بعد آکر دونوں نوعیت کے بارے میں بتائیں گے

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.