تحریر۔۔۔۔۔۔ عبدالکریم
پہلا حصہ
رمضان المبارک سے دو دن قبل دوستوں نے زیارت جانے کا پروگرام بنالیا کیونکہ پھر رمضان میں سفر اور سیاحت کی عیاشی ممکن نہیں ہوسکتی
چار بجے ہم نے کچلاک سے باقاعدہ سفر کا آغاز کیا۔ کچلاک شہر سے نکلتے ہی سڑک کے دونوں اطراف سے سبزہ نے ہمارے ساتھ تیزی سے چلنا شروع کیا اور یہ سبزہ تا حد نگاہ پھیلی ہوئی تھی
بوستان کے علاقے میں سڑک کنارے خانہ بدوشوں کی کچے گارے سے بنے گھر ایستادہ تھے اور ان کے مال مویشیاں گھاس میں چر رہے تھے مال موشیوں کو چراہانے کیلئے خانہ بدوشوں کے چند کمسن لڑکے ہاتھوں میں لکڑی کے ڈنڈے اٹھائے بکریوں کو ہانک رہے تھے
اور دور سے ہمیں خانہ بدوشوں کی خواتین نظر آئے جو لکڑیاں چن رہے تھیں تاکہ اسے بطور ایندھن استعمال کرسکیں اور اسی طرح کچھ اگے ہمارا سامنا خانہ بدوشوں کی خواتین سے ہوا جو مٹکیں اور مشکیزے اور دیگر برتن اٹھائیں پانی لانے کیلئے سڑک کو پار کررہے تھے
ہم کچھ دیر کیلئے رکے تاکہ خواتین سڑک باآسانی پار کرسکیں ان خواتین نے اپنے لباس پر خوبصورت کشیدہ کاری کی ہوئی تھی اور اپنے آستینوں پر ایرانی سکے بھی لگائے ہوئے تھے اور چند دوشیزاوں نے “امیل” چاندی سے بنے ہوئے بڑے ہار بھی اپنے گلے میں ڈالے ہوئے تو جو ان سادہ منش خواتین کی خوبصورتی میں بے پناہ اضافہ کررہا تھا.
بوستان سے آگئے خنائی بابا کا علاقہ شروع ہوتا ہے یہاں پہاڑ کے دامن میں سلیقے سے بنے گھر دلفریب نظارا پیش کررہے تھے ،دہقان اپنے زمینوں میں ہل چلا رہے تھے لوڈشیڈنگ علاقے میں زیادہ ہے تو زمینداروں نے زمینوں کو آباد رکھنے کیلئے اور فصل کو بروقت پانی فراہم کرنے کیلئے شمسی توانائی کا سہارا لیا ہے علاقے میں ہمیں بڑی تعداد میں سولر سسٹم نصب دیکھنے کو ہمیں ملے.
خنائی بابا سے آگے زیارت کراس آتا ہے یہاں سے ایک راستہ بائیں طرف ژوب، قلعہ سیف اور لورالائی کی طرف نکلتا ہے اور ایک راستہ سیدھا زیارت کی طرف جاتا ہے ہماری منزل زیارت تو ہم نے زیارت کا راستہ اختیار کیا کچھ ہی مسافت ہرے بھرے گھاس نے ہمیں الوداع کہا اور پہاڑوں نے ہمارا نے ہمارا استقبال کیا
اور پہاڑ ہمارے ساتھ چلنے لگے پہاڑ بھی کیا تین مختلف رنگ پہاڑ ہمارے ساتھ چل رہے کبھی سرخ رنگ کے پہاڑ نمودار ہوتے جب وہ ختم ہوتے تو مٹی کے رنگ کے پہاڑ ہمارے ساتھ ہو لیتے جب وہ اپنا سفر ختم کرکے تو پھر کوئٹہ کے پہاڑوں کا عموماً جو رنگ ہے وہ پہاڑ ہمارے ہمسفر بن جاتے انہی پہاڑوں کے درمیان کئی سالوں سے خشک ندیوں میں بھی اب نیلگوں پانی رواں تھا اور مختلف علاقوں سے آئے نوجوانوں نے ان کے کنارے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے تاکہ وہ سکون کے چند سانسیں لیے سکیں.
انہی پہاڑوں میں سڑک کنارے مختلف جگہوں پر “شکارپور کے مشہور قلفی” کی کھڑی گاڑیاں بھی دیکھنے کو ملیں جن سے مسافر قلفیاں لیے رہے تھے اور ان ہی کے ساتھ ہمیں پٹے پرانے جوتے اور کپڑے پہنے بچے اور بچیاں ہاتھوں میں تھلیاں اٹھائیں جن میں پہاڑوں کے گھاس نما سبزی
تھی اور وہ قلفی کیلئے رکے گاڑیوں میں جھانک جھانک کر ان سے سبزی لینے کیلئے گاہکوں کو قائل کرنے کی کوشش کررہے تھے.
جاری ہے