رپورٹ ۔۔۔مہک شاہد
صوبہ بلوچستان جہاں پر اپنے حقوق پر قدغن کی ذمہ دار وفاق کو
گردانتی ہے وہی پر دوسرے صوبوں کے مقابلہ میں اپنا استحقاقی حق رکھنے کے باوجود قانون سازیوں کے حوالے سے سب سے پیچھے رہی ہے سندھ وہ واحد صوبہ ہے جس نے بہت سارے معاملات پر خاص کر خواتین کے حقوق کو لیکر بہت سے قوانین بنائے جس میں کم عمری کی شادی کا قانون بھی شامل ہے
بلوچستان میں عورت کے حقوق پر کام کرنے والے ادارے اس مسئلہ کو نہایت سنجیدگی سے دیکھتے ہیں اور وہ حکومت کے ساتھ قانون سازیوں میں مدد بھی کرتے ہیں مگر سیاست اور رجعتی گروہوں کی وجہ سے یہ بل پاس نہیں ہو پاتے جو کہ نہ صرف محنت کا ضیاع ہے بلکہ معیشت ، سماجی اور سیاسی پر بھی اسکے منفی اثرات پڑتے ہیں
اٹھارویں ترمیم کی رو سے اگر دو صوبے کسی بل کو قانون کا درجہ دے دیں تو اسکو تیسرا صوبہ بھی رائج کرسکتا ہے مگر ہم اس پراسس کو بھی نہایت سست روی کا شکار دیکھتے ہیں
وومن ڈیموکریٹک فرنٹ بلوچستان کی سربراہ جلیلہ حیدر نے بلوچستان 24سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ برطانوی راج کا سو سال پرانا قانون ارلی چائلڈ میرج ریسٹرین ایکٹ جو کہ 1929 کو بنا تھا وہ اس وقت کے حالات اور معروض کے رو سے درست تھا مگر اب یہ قانون نہایت بوسیدہ ہوچکا ہے جس پراز نو نظر ثانی کی ضرورت ہے
یہ بھی پڑھیں