عزم و ہمت کی داستان ۔ دختر بلوچستان    

 

تحریر شیخ عبدالرزاق

یہ بھی پڑھیں
1 of 8,946

وہ بچپن میں پائلٹ بن کر فضائیں سر کرنے کے خواب سجائے بیٹھی تھی تاہم بلوچستان کے سخت گیر قبائلی معاشرے میں ایک لڑکی کا پائلٹ بننا ان روایات سے بغاوت کے مترادف تھا جو آباو و اجداد سے چلی آرہی تھیں انہیں مشورہ دیا گیا کہ ڈاکٹر بن جائیں یا درس و تدریس کا شعبہ اپنا کر روایات کے تسلسل کو قائم رکھیں تاہم اس نے روایات سے نکل کر کچھ نیا کرنے کی ٹھان لی ایک ایسے وقت میں جب واضح اسکوپ کا تعین نہ ہونے اور گھٹن زدہ روایتی ماحول میں مرد حضرات کی ایک بڑی ہی مختصر تعداد صحافت سے منسلک تھی اس نے جرنلسٹ بن کر روایات کو توڑنے اور ہوا کی بیٹی کو درپیش مسائل اجاگر کرنے کی ٹھان کی جامعہ بلوچستان کے شعبہ ماس کمیونیکیشن کی کلاس میں سنجیدہ اسٹوڈنٹس کے ساتھ ساتھ سیر سپاٹے کی غرض سے آئے غیر سنجیدہ طالب علموں کے روایتی رویوں کی پرواہ کئے بغیر تدریسی سرگرمیوں میں مگن اس سنجیدہ طالبہ سے متعلق کسی کو ہرگز یہ گمان نہیں تھا کہ بظاہر دنیا و مافیا سے بے نیاز اپنی مخصوص دنیا میں رہنے والی یہ عام سی لڑکی مستقبل کی ایک ایسی عظیم بیٹی ثابت ہوگی جس سے بلوچستان کی پہچان وابستہ ہوگی جامعہ بلوچستان سے صحافت میں ماسٹر ڈگری کی تکمیل کے بعد پاکستان سے موقر روزنامہ سے وابستہ ہوتے ہی مختصر وقت میں انہوں نے معاشرے کے ان سماجی پہلووں کو اجاگر کیا جو اس سے قبل روایات کے کفن میں لپیٹ کر زندہ دفن کردئیے گئے تھے اپنی جستجو میں جہد مسلسل کے ذریعے معاشرے میں انہیں نہ صرف قدر کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا بلکہ سابق صدر مملکت جنرل پرویز مشرف کی جانب سے قانون ساز اسمبلیوں میں خواتین کے مختص کوٹے میں ان کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے سربراہ مملکت کی خصوصی خواہش پر 2002 میں اس وقت کے نامزد وزیر اعلی نے از خود بلوچستان کی فعال ورکنگ جرنلسٹ راحیلہ حمید خان درانی کی نامزدگی رکن بلوچستان اسمبلی کے طور پر کی راحیلہ کی صحافتی خدمات کا دھارا سیاسی فیصلہ سازی کی جانب مڑا تو وہ ایک ایسی قانون ساز قرار پائی جنہوں نے بلوچستان کی روایتی قانون سازی کا رخ بھی انسانی حقوق کے تحفظ اور عوام کے اجتماعی مسائل کی جانب موڑا اور بلوچستان قانون ساز اسمبلی کے اراکین کو مدلل طور پر یہ باور کرایا کہ بلوچستان کی خواتین بھی انسانی حقوق کے زمرے میں آتی ہیں اور اب روایات کے نام پر ان کا مزید استحصال نہیں ہوسکتا اپنی صاف گوئی دو ٹوک موقف رکھنے کی پادشت میں انہیں قدم بہ قدم سخت گیر معاشرتی رویوں اور مشکلات کا جابجا سامنا کرنا پڑا سیاسی و قبائلی اور انفرادی مخالفت کے باوجود یہ اپنے کاز پر ڈٹی رہیں 2008 سے 2013 تک پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں نواب اسلم رئیسانی کابینہ میں منافع بخش محکموں کے بجائے پراسیکوشن کی بظاہر غیر فعال وزارتی ذمہ داریاں دیکر انہیں سائیڈ لائن کرنے کا سوچا گیا لیکن بلوچستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ پراسیکوشن ڈیپارٹمنٹ میں ایسی اصلاحات لائی گئیں جس کی بدولت یہ گمنام شعبہ آج ایک فعال محکمے کے طور پر کام کررہا ہے 24 دسمبر 2015 میں اس وقت کی بھرپور عوامی پذیرائی کی حامل جماعت پاکستان مسلم لیگ( ن) نے میرٹ اور صلاحیت کی بنیاد پر راحیلہ حمید خان درانی کو بطور اسپیکر بلوچستان اسمبلی منتخب کیا اس طرح یہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں کسی بھی صوبے کی پہلی اسپیکر خاتون کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب رہیں ۔ بحیثیت اسپیکر انہوں نے ایوان کو حقیقی معنوں میں پوری غیر جانبداری سے چلایا ان کی دلچسپی سے بلوچستان اسمبلی سے چائلڈ پروٹیکشن اور ڈومیسٹک وائلنس اگینسٹ وویمن جیسے تاریخی بل منظور ہوئے جبکہ انسانی حقوق اور اجتماعی بہبود سے متعلق تاریخ ساز قانون سازی ہوئی بحیثیت اسپیکر اپنی ذمہ داریوں کے آخری روز تک تحفظ نسواں اور عوامی فلاح سے متعلق قانون سازی پر کام کرتی رہیں جن میں ارلی ایج میرج سمیت متعدد بلز آج بھی اراکین قانون ساز اسمبلی کی توجہ کے منتظر ہیں وہ پہلی اسپیکر تھیں جنہوں نے اسمبلی سیکرٹریٹ میں اصلاحات لائیں بائیو میٹرک سسٹم کی تنصیب ہوئی نتیجتا پانچ سو کے لگ بھگ عادی غیر حاضر ملازمین نے عرصہ دراز بعد اسمبلی کی راہ دیکھی گزشتہ سال جولائی میں ایک ایسے وقت جبکہ مقامی سیاستدانوں کی ایک بڑی تعداد حالات حاضرہ کے تناظر میں پاکستان مسلم لیگ( ن) کو دار رفاقت دے کر نئی مقامی سیاسی جماعت میں چلی گئی لیکن سو فیصد کامیابی کی یقین دہانی کے باوجود یہ مانند فولاد مضبوط خاتون اپنی جماعت کے ساتھ کھڑی رہیں انتخابی دھاندلی کے قطع نظر جنرل نشست پر دس ہزار ووٹ لیکر جمہوری اقدار کی پاسداری یقینی بنائی اور جمہوریت کے استحکام اور نظریاتی سیاست کی عملی مثال بنیں آج راحیلہ اسمبلی میں نہ ہوتے ہوئے بھی اپنے مشن سے دستبردار نہیں ہوئیں ان کا عزم ہے کہ بلوچستان اسمبلی سے منظور ہونے والے بلز پر عمل درآمد کے لئے وہ ذاتی سطح پر جدوجہد جاری رکھیں گی اور جامعہ بلوچستان سمیت تمام اداروں میں خواتین سے روا رکھے جانے والے امتیازی رویوں اور ہراسمنٹ جیسے اخلاق باختہ سوچ کے خاتمے کے لئے کسی مشکل کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ہوا کی بیٹی کو معاشرے میں اس کا صحیح مقام دلا کر ہی رہیں گی بلوچستان کو اپنی اس عظیم دختر پر فخر ہے

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.