چیف سیکرٹری نے صوبے میں گورننس تہہ وبالا کردیا، بلوچستان ہائیکورٹ

نہ تو ایگزیکٹوہیرارکی کے چیف ایگزیکٹو کواور نہ ہی اس روئے زمین پر کسی اور کو انکی کارکردگی بارے پوچھنے کی ہمت ہے

کوئٹہ خبرنامہ

بلو چستان ہائی کورٹ کے جسٹس محمد کامران خان ملاخیل اورجسٹس روزی خان بڑ یچ پر مشتمل بینچ نے بلو چستان با ر کونسل بذریعہ چئیرمین پر ونشل کوارڈ ینشین کمیٹی دائر درخواست کی سماعت کی۔

درخواست گزار کی جانب سے چیف سیکریڑی بلو چستان،سول سیکریڑیٹ کوئٹہ،سیکریڑی لوکل گورنمنٹ، سیکرٹری صحت بلو چستان،میونسپل کارپویشن کوئٹہ کی انتظامیہ اور چاردیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

معزز عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے ایکبار بھر سے یا دہانی کروائی کہ عدالت کے گزشتہ حکم بتاریخ 20ستمبر 2020 کیمطابق چونکہ زیر نظر درخواست بمعہ سی پی نمبر2018,587سی پی نمبر 824،2016اور سی پی نمبر 558،2020ایک جیسی رعایت سے متعلق ہیں۔

 اور یہ رعایت بلو چستان بلڈ نگ کوڈ 1937کی خلاف ورزی میں بلند وبالا عمارات کی تعمیر،نجی ہسپتالوں کے مسئلہ اور کوئٹہ شہر کے زیر التواء مختلف شاہراؤں کی وسعت کے منصوبے کیلئے ہے لہذا تمام درخواستوں کو زیر دست درخواست کے ساتھ جوڑدیا گیا ہے۔

 لہذا اس پٹیشن میں جاری کئے گئے تمام احکامات کو مذکورہ بالا درخواستوں کا جزو لا ینفک سمجھا جائے۔

معزز عدالت نے اس وضاحت کے بعد کوئٹہ شہر کے مختلف شاہراؤں کی وسعت سے متعلق سماعت کرنے کے بعد چیف ایگزیکٹوآفیسر پاکستان ریلویز کو حکم دیاکہ وہ انسکمب رو ڈ کے معاملہ پر فوری کمشنر کوئٹہ ڈویژن /پراجیکٹ ڈائریکٹر کو روڈکی تعمیر کیلئے این او سی جاری کرے جیساکہ یہ مشاہدات عدالتی حکم کا حصہ ہیں۔

 لہذا پاکستان ریلویز کے حکام  کومذکورہ اراضی کی ادائی اور ریلوے کو درکار زائد اراضی کے حصول کیلئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔عدالت نے توقع ظاہر کی کہ اسں ضمن میں تمام ضروری کاروائی ایک ماہ کے عرصہ میں مکمل کرلی جائے گی ۔

بصورت دیگر ڈی ایس پاکستان ریلویز کوئٹہ اور چیف ایگزیکٹو آفیسر پاکستان ریلویز کو بذات خود اگلی شنوائی پر عدالت میں پیش ہو نا پڑیگا۔

معزز عدالت نے مجوزہ ٹریفک انجینئرنگ بیورو کے قیام اور ٹریفک کے انتظام سے متعلق ایشوز جن میں لوکل بسوں کی شہر سے باہر کسی مناسب مقام پر منتقلی،

کوئٹہ شہر میں گرین بس پائلٹ پراجیکٹ کاا ٓغاز،شہر میں غیر قانونی رجسٹرڈ رکشہ جات،ہتھ گاڑیوں کا شہر سے

خاتمہ کوئٹہ شہر میں غیر قانونی سوزوکیوں اور شہ زور پک آپ اور A-1شاہراؤں کیلئے تشکیل شدہ ٹریفک منجمنٹ پلان شامل ہیں کی شنوائی کی۔

 عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اس حوالے سے گذشتہ عدالتی احکامات زیر نظر کیس میں بھی موثر رہیں گے تاکہ ابہام یا غلط فہمی کا امکان نہ رہے ۔

معزز عدالت نے اس کیس میں جوابدہندگان کو ایک بار پھر حکم دیا کہ وہ ٹریفک کے گھمبیر دیرینہ مسئلہ کو فور ی طور پر حل کریں اور ٹریفک انجینئر نگ بیوروکے قیام کے مسئلہ کو بھی حتمی طور پر حل کریں۔

 معزز عدالت نے سیکریڑی خزانہ،چیئرمین ریجنل /صوبائی ٹرانسپورٹ اتھارٹی اورایس ایس پی ٹریفک کوحکم دیتے ہوئے کہاکہ پیش کردہ تجاویز پر جلد کاروائی کرے اور اس حوالے سے وزیر اعلیٰ بلو چستان کو بھی سمری پیش کی گئی ہے ۔

لہذا عدالت وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکریڑ ی کو بھی حکم دیتی ہے کہ بلا تاخیر فوری فیصلہ کو یقینی بنائیں۔

 معزز عدالت نے بلڈنگ کوڈ کے خلاف ورزی اور بلند و عمارات کی تعمیر سے متعلق ریمارکس ریتے ہوئے کہاکہ باوجود اس کہ عدالت نے سی پی نمبر 587،2018اور سی پی نمبر 804،2020میں کئی احکامات صادر کئے ۔

لیکن بظاہر لگتا ہے کہ میونسپل کارپوریشن کوئٹہ کی انتظامیہ نے صرف ایسی رپورٹس جمع کرائیں ہیں جن میں یا تو بلند و بالاعمارت کاذکر ہے یا وہ عمارتیں جنہیں تجارتی حیثیت دے دی گئی ہے یا پھروہ جوکہ رہائشی مقصد کیلئے تعمیر کی گئی تھیں وہ بھی نجی ہسپتالوں میں تبدیل کردی گئی ہیں۔

 لیکن بدقسمتی سے نئی بلند و بالاعمارات کی تعمیر کیلئے بلڈ نگ کوڈ کی منظوری کے انتظار میں نہ تو پہلے سے تعمیر شدہ عمارتوں کو باقاعدہ بنایا گیا اور نہ ہی نئے بلڈنگ کوڈ کی قانون سازی کی گئی ہے۔

سیکریڑی لوکل گورنمنٹ اور اسکے انتظامی آفیسر ایڈمنسٹر یڑ ایم سی کیو کے ساتھ باقاعدگی سے عدالت میں 23مئی 2016سے مختلف درخواستوں کے ضمن میں پیش ہوتے رہے ہیں۔

 اور ہر بار  وہ یہی عذرلنگ پیش کرتے ہیں کہ بلڈنگ کوڈکا معاملہ منظوری اور غور کیلئے رکھا گیا ہے عدالت تو یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ شاہد ایگزیکٹو زمیں کوئی آفیسر یاتو میسر نہیں ہے یا پھر اس مسئلہ کو حل کرنے کا اہل نہیں ہے۔

 سیکریڑی لوکل گورنمنٹ رپورٹ پیش کرتے ہیں کہ نئی بلڈنگ کوڈ کے لیے کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کرلی ہے جبکہ دوسری جانب ایم سی کیو کا آرکیٹکٹ برانچ کہتا ہے کہ وہ ہیومن ریسوریس کی کمی اور مطلوبہ ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کی شدید کمی کا شکار ہے ۔

اور تو اور ایڈمنسٹریٹر ایم سی کیو بارہاں بلڈنگ کوڈ کے نفاذ کیلئے عدالت سے مہلت مانگ چکے ہیں لیکن ہمیشہ منفی پیش رفت کے ساتھ پیش ہو جاتے ہیں ۔

یہ بھی پڑھیں
1 of 8,946

حتی کہ ان کا کہنا ہے کہ جب بھی وہ کسی ایسی عمارت کو سیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں پہلے تو عمارت کے مالکان قانون کا حکم ماننے کو تیار نہیں ہوتے اور اگر میونسپل کا عملہ عمارت سیل کرنے میں کامیاب بھی ہو جائے تو مالکان مجرمانہ مذمت کرتے ہوئے خود ہی سیل توڑ دیتے ہیں۔

 اور ان کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ یہ امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے جبکہ شہر کے اطراف میں بہت سے بلندوبالا نجی عمارتیں تعمیرکی جا رہی ہیں اور جب کہ کنٹونمنٹ بورڈ ایریا میں تو بلڈنگ کوڈ کی بھرپور خلاف ورزی ہو رہی ہے اور کوئی طاقت ان عمارتوں کی طرف اشارہ بھی نہیں کرسکتی۔

 بلڈنگ کوڈ کی خلاف ورزی کا اطلاق صرف ان پر ہی کیوں معزز عدالت نے کنٹونمنٹ بورڈ کوئٹہ کے حوالے سے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سی پی نمبر/2018 587 میں انہیں رپورٹ پیش کرنے کا کہا گیا تھا لیکن سوائے دو پیشیوں کے سدرن کمانڈ اورجج ایڈوکیٹ جنرل برانچ سے کوئی نمائندگی نہیں ہو رہی ۔

لہذا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدالتی احکامات کی روح پر عمل نہیں کیا جا رہا ہے عدالت نے ایگزیکٹیو آفیسرکنٹونمنٹ بورڈ کوئٹہ اور سدرن کمانڈ کے جے اے جی برانچ کو نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا ۔

کہ گزشتہ احکامات کے مطابق رپورٹ پیش کرنے کے لیے عدالت نے مزید ریماکس دیتے ہوئے کہا کہ مذکورہ رپورٹ بلڈنگ کوڈکے حوالے سے پیش کی جانی ضروری ہے ۔

کیونکہ تب ہی یہ فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ آیا وہ مالکان جنہوں نے بلڈنگ کوڈ کیخلاف ورزی کرتے ہوئے تعمیرات کی ہیں انہیں صوبہ میں بغیر پوجوگچھ کے ایسے ہی چھوڑدیا جائے وہ بھی صرف اس لئے کہ کنٹونمنٹ بورڈ میں تعمیر کردہ عمارتیں قانون کے دائرہ میں نہیں لائی جاسکتی ۔

اور اس طرح صوبے کے تمام خلاف ورزوں کو آزادی دے دی جائے کہ وہ قانون کی خلاف ورزی کریں کیونکہ گورنمنٹ کے ادارے بھی ایسا کر رہے ہیں۔

معزز عدالت نے اس امرپرناگواری کا اظہار کرتے ہوئے مزید ریمارکس دینے کہ باوجود اس کے کہ گذشتہ  پٹیشنز میں متعلقہ افسران کو احکامات دیے گئے لیکن بلند و بالا عمارات کی تعمیر اور بلڈنگ کوڈ  1937 کی خلاف ورزی کا معاملہ بدستور عدالت میں زیر التوا ہے۔

 اور بدقسمتی سے لگتا  یہ ہے کہ نئی بلڈنگ کوڈ کی قانون سازی کا معاملہ ان وجوہات کی بنا پر حل نہیں ہو سکتا جن کا علم صرف جواب دہ اہلکاروں کو ہے۔

 معزز عدالت نے نجی ہسپتالوں کی ریگولیڑی اتھارٹی سے متعلقہ معاملات کی سماعت کرتے ہوئے دو ماہ کی مہلت دی اور اس حوالے سے رپورٹ اگلی پیشی پر پیش کرنے کی ہدایت کی۔

 مزید براں معززعدالت نے ایڈمنسٹریٹر کیو ایم سی کے دلائل کی روشنی میں ڈپٹی کمشنر کوئٹہ اور ڈی آئی جی پولیس کوئٹہ ریجن کو حکم دیا کہ وہ قانون کی عمل داری کے لیے ایڈمنسٹریٹر کو تمام ضروری معاونت بمعہ لوجسٹک اور ہیومن ریسورس ڈیلوائی منٹ  مہیا کریں ۔

اور نئی بلڈنگ کوڈ کے نفاذ تک کمشنر،ڈپٹی کمشنر،ڈی جی ہیلتھ اور ایڈمنسٹریٹر کیو ایم سی کو حکم دیا کہ وہ ان امور پر عملدرآمد یقینی بنائیں کہ(I)کوئٹہ شہر میں کوئی عمارت بھی بلڈنگ پلان کی منظوری کے برخلاف تعمیر نہیں کی جائے گیII) (کسی بھی رہائشی عمارت کو کمرشل عمارت میں تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔(III) رہائشی علاقہ میں کمرشل عمارات کی تعمیر کی اجازت نہیں ہوگی((IV شہر میں جاری تمام منصوبے جو بلڈنگ کوڈ کے خلاف ورزی میں جاری ہیں انہیں آئندہ حکم تک روک دیا جائے۔ V))نئے ہسپتالوں میں کار پارکنگ کی

سہولت کے بغیر بلڈنگ پلان منظور نہیں کیا جائے اور بلڈنگ پلان کے لیے این اوسی پرائیوٹ ہسپتال ریگولیٹری اتھارٹی سے جاری ہوگی۔(VI)ڈپٹی کمشنر کوئٹہ اور ایڈمنسٹریٹر ایم سی کیو،ڈی جی صحت سے مل کر اسپیشل کمیٹی تشکیل دیں گے جو پرائیویٹ ہسپتالوں کی تعمیر کی اجازت دیں گے۔(VII) کمشنر کوئٹہ رہائشی عمارت کی کمرشل عمارتوں میں تبدیلیکی تفصیلات حاصل کرنے کے بعدڈپٹی کمشنرکوئٹہ کوہدایت دیں گے کہ وہ مالکان کوقانون کے مطابق ریگولرائزیشن کے لئے ضروری نوٹسز دیں گئے (VIII)مذکورہ بالا تمام تفصیلات کیسکو،واسا،ایس ایس جی اور پی ٹی سی ایل کو یہ امر یقینی بنانے کیلئے فراہم کی جائے گی کہ وہ کمرشل عمارت میں تبدیل شدہ بلڈنگ کے مالک کو عوامی سہولیات گھریلو ریٹ پر فراہم نہیں کریں گے۔(iX)ایڈمنسڑیٹرکیو ایم سی کی رپورٹ پر ڈی آئی جی کوئٹہ ریجن اور ڈپٹی کمشنر کوئٹہ بلڈنگ کوڈ کے خلاف ورزوں کے خلاف قانونی وضروری ایکشن کو یقینی بنائیں گے ۔

وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکریڑی  عدالت میں رپورٹ جمع کرانے کیلئے ا ن احکامات کے نفاذ کی نگرانی کرینگے ۔

چیف سیکرٹری بلوچستان کے بارے میں ریمارکس

معزز عدالت نے چیف سیکریڑی بلو چستان کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ باوجود اس کے کہ وہ بذات خود گزشتہ احکامات کے وقت موجود تھے اور انہیں واضح ہدایت دی گئی تھیں کہ ان پٹیشنز میں اٹھائے گئے معاملات پر رپورٹ جمع کرائیں گے۔

 لیکن بدقسمتی سے لگتا ہے کہ وہ اپنی سروس پوری ہونے کے منتظر ہیں لہذا وہ عدالت کے احکامات پر کوئی توجہ نہیں دے رہے ۔

انکی خراب کارکردگی نے صوبے میں گورننس کوتہہ وبالا کردیاہے لیکن نہ تو ایگزیکٹوہیرارکی کے چیف ایگزیکٹو کواور نہ ہی اس روئے زمین پر کسی اور کو انکی کارکردگی بارے پوچھنے کی ہمت ہے ۔

بطور سول بیورکریسی کے رہنما اور صوبے کے ایگزیکٹو برانچ کے چیف ایڈمنسٹریڑ آفیسر کے وہ ہی صوبے کی انتظامی امو ر میں مسائل کے ذمہ دار ہیں۔

 معززعدالت نے مزید کہاکہ صوبے کے چیف ایگزیکٹوکے لیے بہتر وقت ہے کہ وہ صوبے میں گورننس کی دن بدن بگڑتی حالت کاسنجیدگی سے نوٹس لیں۔

عدالت نے سی پی نمبر2020/804اور سی پی نمبر 2018/587کی کاپیاں وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکریڑی کو فراہم کرنے کا حکم دیا اور یہ بھی احکامات دئے ۔

کہ  عدالت سے وقتاًفوقتاً جاری کردہ احکامات اور پٹیشنز میں اٹھائے گئے مسائل کے حوالے سے وزیر اعلیٰ سے منظور اور خود پرنسپل سیکرٹری سے دستخط شدہ رپورٹ جمع کرائیں معزز عدالت نے پٹیشنز سے وابستہ تمام متعلقین کو حکم نامہ کی کاپیاں اطلاع اور عملدارآمدکیلئے ارسال کرنے کی ہدایت کی۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.