کوئٹہ :کوئٹہ میں شدید سردی کے دوران گیس نا ہونے کی وجہ سے شہری سوختنی لکڑی کی قیمت میں بھی کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے، عوام مہنگے داموں لکڑی خرید کر استعمال کرنے پر مجبور ہیں، شدید سردی میں گیس پریشر کی عدم دستیابی کے ستائے ہوئے لوگوں نے گھروں کو گرم رکھنے اور کھانا بنانے کیلئے لکڑیوں کا استعمال شروع کر دیا۔بلوچستان کے 35 اضلاع میں سے صرف 10 اضلاع کوبلوچستان کے علاقے سوئی سے نکلنے والی سوئی گیس کی سہولت دستیاب ہے جن میں کوئٹہ، پشین، سبی، بولان، قلات اور زیارت بھی شامل ہیں لیکن سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی ان اضلاع میں سوئی گیس کا پریشر انتہائی کم ہو جاتا ہے جس کے پیش نظر صارفین متبادل ذرائع کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔
جہاں سردیوں میں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے کئی ڈگری نیچے گر جاتا ہے وہاں گھروں کو گرم رکھنے اور کھانا بنانے کیلئے لکڑیاں بطور ایندھن استعمال ہوتی ہیں۔گھروں میں جلانے کے لیے لکڑی جو عام طور پر 1200 روپے من فروخت ہوتی تھی سردیوں میں 1600روپے من تک پہنچ گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ اب شہریوں کے لیے لکڑی کا استعمال بھی مشکل ہونے لگا ہے۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے شہریوں نے شکوہ کیا کہ گیس کا تو نام نشان نہیں ہے اس لیے ہم لکڑی خریدنے پر مجبور ہیں گیس تو بالکل نہیں ہے ہم اب ایل پی جی خرید نہیں سکتے، لکڑی کا یہ حال ہے، ایک ٹال پر جاؤ کوئی بولتا ہے 1400 روپے کا من ہے اور دوسرا کہتا ہے 1600 روپے کا من ہے، اور کوئی کہتا ہے کہ 2000 کا من ہے، غریب بند ہ اتنا پریشان ہے لیکن کوئی سننے والا ہی نہیں ہے۔
دوسری جانب ثنااللہ نامی دکاندار کا کہنا تھا کہ ابھی گیس کا پریشر بالکل نہیں ہے اس لیے لکڑی 1500 سے 1600 روپے من تک فروخت ہو رہی ہے اور اگر گیس ہو تو 1100 سے 1200 روپے من کا ریٹ ہے۔بلوچستان کے وہ اضلاع جہاں سوئی گیس کی سہولت میسر نہیں ہے وہاں گھروں کو گرم رکھنے کیلئے لکڑی کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لہٰذا شہریوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت لکڑی کی دستیابی اور ان کی قیمت کوکم کرنے کیلئے اقدامات کرے تاکہ شہری گیس کی بجائے لکڑی کو بطور ایندھن استعمال کر کے اپنی ضروریات پوری کر سکیں۔