حجاج کرام کی شہادتیں: سعودی انتظامیہ کی غفلت یا ناقص انتظامات

تحریر:
میر بہرام لہڑی

ایک تشویش!

مکہ مکرمہ میں قیامت خیز گرمی، جاں بحق حجاج کرام کی تعداد 900 سے زائد بتائی جارہی ہے۔

حج اسلام کے پانچ فرض ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے۔ حج صاحب استطاعت اور بالغ پر زندگی میں ایک دفعہ فرض ہے۔

یہاں پر صاحب استطاعت سے مراد وہ شخص جس کے پاس اتنی رقم اور جائیداد موجود ہو جس سے وہ حج کے اخراجات پوری کرسکے اس پہ زندگی میں ایک دفعہ اللہ تعالٰی کے گھر کی زیارت فرض ہے۔ حج کے فرض ہونے کے بہت سارے احادیث موجود ہیں اور قران شریف کی روشنی میں بھی اسکی اہمیت ثابت ہے۔

حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے اپنی زندگی میں ایک دفعہ حج کیا۔

مسلمان ہر سال اسلامی مہینے ذوالحجہ کی 8 سے 12 تاریخ کو سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ کی زیارت کے لیے حاضر ہو کر وہاں جو مخصوص عبادت انجام دیتے ہیں، اس مجموعہ عبادات کو اسلامی اصطلاح میں حج اور ان انجام دی جانے والی عبادات کو مناسک حج کہتے ہیں۔

حج کے دوران بہت سارے سنگین حادثات ہوتے رہے ہیں اور ان سے ہزاروں انسان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

حج ایک جسمانی مشقت ہے۔ ہرسال لاکھوں رجسٹر حاجی حج کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ لاکھوں غیر رجسٹر حاجی بھی پہنچ جاتے ہیں۔

2024 میں بھی ساری دنیا سے 18 لاکھ رجسٹر حاجی بتائے جاتے ہیں۔ اور غیر رجسٹرڈ حجاج کرام کا ڈیٹا موجود نہیں۔

پاکستان سے ایک لاکھ ساٹھ ہزار حاجیوں نے حج کی سعادت حاصل کی۔ اس سال پاکستانی حاجیوں کی اوسطاً رقم دس لاکھ ستر ہزار پاکستانی تھی۔

اور انڈیا میں اوسطا ایک حاجی پہ 13 لاکھ پاکستانی روپیہ خرچہ اور انڈیا سے 175000 ہزار حاجیوں نے فریضہ حج ادا کیا۔

اگر ہم 18 لاکھ حاجیوں کی رقم کو اوسطا دس لاکھ پاکستانی روپے کا ساتھ بھی تقسیم کریں تو One hundred eighty billion ہوتے ہیں۔

یہ رقم سعودیہ کے اکائنٹس میں براہ راست ساری دنیا سے منتقل ہوجاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہر حاجی اپنی استطاعت کے مطابق اپنے ساتھ رقم لے جاتا ہے۔

یہ خرچہ ایک نارمل حج کے ہیں۔ اس کے علاوہ پرتعیش اور لگژری حج پیکجز پچاس لاکھ پاکستانی روپیہ سے بھی زائد آتا ہے.

سعودیہ اب تیل کے بعد مزہبی سیاحت پہ بھی انحصار کررہی ہے۔

ولی عہد محمد بن سلمان سعودیہ میں انقلابی تبدیلیاں کررہے ہیں۔ حج 2024 کے انتظامات کو دیکھنے کے لیے سعودی عرب کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز خود پہنچ گئے اور بہتر انتظامات اور سہولیات کی تاکید کی!

سعودی حکام کے مطابق ہر سال کروڑوں روپے حج کے انتظامات پہ خرچ کئے جاتے ہیں۔

مکہ سے لے کر عرفات کے میدان تک ہر جگہ CCTV کیمرہ نصب کئے گئے ہیں۔ ہزاروں ایمبولینس اور لاکھوں سیکورٹی اہلکار اور ہر ملک کے لاکھوں رضاکار موجود ہوتے ہیں۔

ویسے تو مکہ سے لے کر عرفات کا میدان 23 کلو میٹر بنتا ہے۔

مگر جگہ جگہ راستوں میں تبدیلی اور مصنوعی رکاوٹ پیدا کرنے کی وجہ سے یہ رستہ طویل اور کھٹن بنتا جارہا ہے۔

سعودیہ حکومت اپنی طرف سے تو بہتر سوچ کر یہ اقدامات اٹھا رہی ہے، مگر گرمی کی وجہ سے حاجیوں کو دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق خبر رساں ایجنسیوں نے سفارت کاروں اور حکام کے حوالے سے بتایا کہ اس دفعہ شدید گرمی اور حبس سے 900 سے زیادہ حجاج کرام جاں بحق ہوگئے ہیں۔

ان جاں بحق ہونے والوں میں کم از کم 600 مصری، 144 انڈونیشیائی، 68 ہندوستانی، 60 اردنی، 35 پاکستانی، 35 تیونسی، 11 ایرانی اور تین سینیگالی شامل ہیں۔

سعودی سرکاری ٹی وی نے کہا کہ پیر 17 جون کو مکہ مکرمہ کی گرینڈ مسجد میں درجہ حرارت 51.8 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا۔

اتنی زیادہ تعداد میں حجاج کرام کی ہلاکت پہ ایک تشویش ہے۔

اس بابت اب تک سعودی حکومت کا کوئی آفیشل اور سرکاری بیان جاری نہیں ہوا۔

اس بابت سوشل میڈیا پہ بہت سارا مواد موجود ہے، جسکی تصدق و تردید ہونا باقی ہے۔

حجاج کرام کے مطابق اس دفعہ سعودیہ حکومت کے انتظامات ناقص تھے اور جگہ جگہ رکاوٹوں کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافہ ہوا۔

ایک طرف سعودی عرب تیزی سے دنیا کی ابھرتی ہوئی معاشی قوت بنتی جارہی ہے اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالے سے دنیا کے سرفہرست ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔

دنیا کا سب سے بڑا میگا پراجیکٹ یعنی “نیوم سٹی ” کی تعمیر جیسے منصوبوں کو شروع کرنے والا ملک ہے تو دوسری طرف ایسی غفلت اور ناقص انتظامی بندوبست، جس کی وجہ سے سینکڑوں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ، اپنے آپ میں ایک سوالیہ نشان ہے ضروری امر یہ ھیکہ اس تناظر میں ایک تحقیقاتی کمیٹی مرتب کی جائے اور انتظامی غفلت کے شکار ذمہ داروں کا احتساب کیا جائے تاکہ آئندہ اس طرح کے اندوہناک واقعات سے بچا جا سکے ۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.