فتح شاکرسے
کل صبح جب ہماری نیوز ٹیم سول اسپتال کوریج کے لئے پہنچی تو او پی ڈی بند تھا اورباہر جمع غفیر تھا. مختلف امراض سے لاحق درد سے کراہتے ہوئے لوگ منتظر مسیحا تھے.نہ صرف ہر سمت دبی آہ و بقاءتھی بلکہ ان لوگوں کے چہروں سے درد کی تکلیف عیاں تھی۔
ایسے ہی نادار مریضوں مشکلات کے حوالے سے رپورٹ تیار کرنے بعد جب ہم واپس ڈی ایس این جی (لائیو وین )کی جانب روانہ ہوئے ، رش سے بچ بچا کر نکلنے والے ہی تھے کہ میرے کانوں میں ایک خاتون کی آواز سنائی دی جس ساتھ ہی موجود دوسری خاتون سے کہا۔۔۔۔
” یہاں تو ڈاکٹر ہی نہیں ہیں اور غضب یہ کہ ہمارے پاس تو واپس گھر جانے کا کرایہ بھی نہیں ہے ان بیمار بچوں کا کیا ہوگا “
یہ الفاظ سن کر میں دبی آہٹ میں واپس پلٹا اور ان سے مخاطب ہواکہ۔۔۔!
”خالہ کیا ہوا ہے. دونوں خواتین یک دم بول پڑیں( ہسپتال بند ے،نن امر کین؟؟؟) یعنی ہسپتال بند ہے ہم اب کیا کریں،،،؟ہسپتال کی بندش کی وجہ پوچھنے پر میں نے انہیں بتایا کہ ڈاکٹر ز کی ہڑتال ہے اسکی وجہ سے معالجین علاج کرنے سے قاصر ہیں“
دونوں خواتین مجھے تکتی ہوئی اضطرابی کیفیت میں کہنے لگیں ۔۔۔۔!
”ہم بہت دور سے آئے ہیں ہمیں تو ڈاکٹروں کے بیٹھنے کی جگہ یعنی او پی ڈی کا ہی معلوم نہیں تھا ،پوچھتے پوچھتے کس تکلیف میں یہاں پہنچیں ،اب کیا ہوگا.؟؟
میں نے پوچھا کسی سے مطالبہ کرو گی کہ ان طبیبوں کو تنبیہ کریں،ان کا بے بسی بھر اجواب تھا کہ ہمیں کیا معلوم کس سے مطالبہ کریں ،ہم تو تکلیف سہہ کر یہاں آئے اب واپسی کا کرایہ بھی نہیں ،،
نہ جانے کتنے مریض ہوں گے جن کے پاس علاج کے پیسے تو درکنار ہسپتال پہنچنے تک کا کرایہ ہی نہیں. اور میں آگے بڑھ گیا۔
اسی طرح کا ایک اور واقعہ اس وقت پیش آیا جب کچھ روز قبل عدالت میں کرپشن کوریج کے لیے پہنچا تو عدالتی دربان خان زمان سے ملاقات ہوئی ۔
حال احوال کے بعدا س نے مجھے ایک طرف کرتے ہوئے کہا ،سر ایک بات تو بتاو ؟
میں نے کہا کہ بولو کیا بات ہے اس نے کہا کہ میں کچھ روز قبل اپنے ایک مریض کو پرائیوٹ ہسپتال گیا مطلوبہ ڈاکڑ تک پہنچتے ہوئے کافی دقت کا سامنا کرنا پڑا۔کیوں کہ ہسپتالوں میں رش بہت بڑھ گیا ہے ،میں نے ڈاکڑ کے اسٹنٹ سے نمبر کے بارے پوچھا کہ کونسا نمبر ملے گا اس نے کہا 150 ویں کے بعد
میری سمجھ میں 50آیا پھر پوچنے پر پتہ چلا کہ 151 نمبر میرا ہوگا میں حیران ہوگیا اور بھر سوچنے لگا کہ ڈاکٹر 4گھنٹے مریضوں کو چک اپ کرے گا۔
اتنے سارے مریضوں کو کیسے ٹائم دے گا ،ایک اندازہ لگایا جائے تو فی مریض کو ایک منٹ چھ سیکنڈ ٹائم ملے گا۔اس ٹائم میں تو حال احوال بھی نہیں پوچھا جاسکتا۔مطلب ایک مریض 1000روپے کے عیوض صرف ایک منٹ خرید سکتا ہے۔اور اگر 150مریضوں کی فیس کو جمع کیا جائے تو وہ ایک لاکھ پچاس ہزار بنتے ہیں۔
اور تمام مریضوں کی پرچیوں پر پہلے سے کچھ غیر معروف اورمہنگی ادویات نوشتہ ہوتی ہیں۔
ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں
ڈاکٹرز کی ہڑتال کی وجہ جو بھی ہو مگر یہی ڈاکڑ سرکاری ہسپتالوں سے ہڑتال کے بہانے غائب ہو کر اپنے کلینکس میں حاضر ہوتے ہیں ۔
اگر میں ان کو کاروباری مسیحا نہ کہو تو کیا کہو۔۔۔۔۔ِ؟؟؟؟