رپورٹ: مرتضیٰ زیب زہری
کوئٹہ میں پانی کی قلت ایک سنگین مسئلہ ہے جو شہر کے باشندوں کی زندگیوں کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔
کوئٹہ کے علاقے سریاب روڈ کے بزرگ ایک شہری محمد اعظم بھی اس صورتحال کا شکار ہیں۔
وہ 2 ہزار روپے فی ٹینکر پانی خریدنے کا متحمل نہیں ہو سکتے، اس لیے وہ روازنہ 20 روپے فی گیلن پانی خرید کر اپنی روز مرہ کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔
بلوچستان 24 سے گفتگو کرتے ہوئے محمد اعظم نے کہا کہ یہ ان کے لیے ایک مشکل صورتحال ہے۔ وہ ریٹائرڈ ملازم ہیں اور ان کی آمدنی محدود ہے۔ وہ اتنا پیسہ پانی پر خرچ کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتے جتنا کہ دیگر لوگ کر سکتے ہیں۔
اس کے نتیجے میں، وہ اپنے پانی کے استعمال کو کم کرنے کے لیے مجبور ہوئے ہیں جس سے ان کی روزمرہ کی زندگی میں مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔
محمد اعظم کی کہانی کوئٹہ میں پانی کی قلت کے بحران پر لوگوں کے آنے والے اخراجات کی ایک مثال انسانی اخراجات کی ایک مثال ہے۔
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پانی کی قلت کا مسئلہ سنگین صورتحال اختیار کر چکا ہے اور ماہرین آب نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو آنے والے 5 سے 8 سالوں میں لوگوں کو پانی کی عدم دستیابی کے باعث ہجرت کرنے پر مجبور ہونا پڑ سکتا ہے۔
واضح رہے کہ کوئٹہ ایک خشک اور گرم شہر ہے جہاں سالانہ بارش کی اوسط صرف 200 ملی میٹر ہے۔
شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی اور غیر منظم زرعی و صنعتی سرگرمیوں نے پانی کے وسائل پر دباؤ ڈالا ہے، جس کے نتیجے میں زیر زمین پانی کی سطح میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔
اس کے علاوہ، کوئٹہ میں پانی کی ضائع بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ شہر کے پانی کے انفراسٹرکچر میں لیک اور غیر قانونی کنکشن عام ہیں، جس سے پانی کا ایک بڑا حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔
کوئٹہ کے شہری پانی کی قلت سے نمٹنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کر رہے ہیں۔
کچھ لوگ ٹینکروں سے پانی خریدتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ نجی واٹر سپلائی کمپنیوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ تاہم، یہ دونوں اختیارات عام شہریوں کے لیے بہت مہنگے ہیں۔
حکومت نے پانی کی قلت کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں، جن میں نئے ڈیموں اور تالابوں کی تعمیر اور پانی کے ضیاع کو کم کرنے کے لیے اقدامات شامل ہیں۔
تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کو کافی نہیں سمجھا جا سکتا اور پانی کے بحران سے نمٹنے کے لیے زیادہ جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
ماہرین کے مطابق: اس کے علاوہ، کوئٹہ میں پانی کا ضیاع بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ شہر کے پانی کے انفراسٹرکچر میں لیک اور غیر قانونی کنکشن عام ہیں، جس سے پانی کا ایک بڑا حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔
نتیجہ یہ ہے کہ کوئٹہ میں زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک کم ہو گئی ہے۔ 1998 میں، شہر میں زیر زمین پانی کی سطح 80 سے 200 فٹ کے درمیان تھی۔ تاہم، اب یہ 1000 سے 1200 فٹ تک پہنچ گئی ہے۔
ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو کوئٹہ میں پانی کی قلت بہت سنگین ہو جائے گی۔ لوگوں کو پینے، کھانا پکانے اور باتھ روم کے لیے پانی تک رسائی حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑے گی۔ اس سے شہر میں صحت کے مسائل، سماجی تنازعات اور معاشی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
ماہرین نے حکومت اور شہریوں سے مل کر کام کرنے کا مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کریں۔ انہوں نے پانی کی بچت کے اقدامات، پانی کے وسائل کے بہتر انتظام، اور زراعت اور صنعت میں پانی کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے اقدامات کی تجویز دی ہے۔
بلوچستان کے ماہر ارضیات پروفیسر ڈاکٹر دین محمد کاکڑ نے خبردار کیا ہے کہ کوئٹہ میں پانی کی قلت “الرمنگ” صورتحال اختیار کر چکی ہے اور اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو آنے والے 5 سے 8 سالوں کے اندر شہر کو خالی کرنا پڑ سکتا ہے۔
پروفیسر کاکڑ نے بلوچستان 24 سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ کوئٹہ ایک خشک اور گرم شہر ہے جہاں سالانہ بارش بہت کم ہوتی ہے۔ شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی اور غیر منظم زرعی و صنعتی سرگرمیوں نے پانی کے وسائل پر دباؤ ڈالا ہے، جس کے نتیجے میں زیر زمین پانی کی سطح میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ “یہ ایک الرمنگ صورتحال ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ہم یہاں آئندہ پانچ سے آٹھ سال تک رہ سکیں گے، کیونکہ پانی یہاں بالکل ختم ہو جائے گا۔”
پروفیسر کاکڑ نے مزید کہا کہ کوئٹہ میں پانی کی قلت پہلے ہی صحت کے مسائل، سماجی تنازعات اور معاشی مشکلات کا باعث بن رہی ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔
کوئٹہ واٹر اینڈ سینیٹیشن اتھارٹی (واسا) کے مینیجنگ ڈائریکٹر حامد لطیف رانا نے کہا ہے کہ کوئٹہ شہر کو پانی کی شدید کمی کا سامنا ہے اور موجودہ طلب کو پورا کرنے کے لیے کافی پانی فراہم نہیں کیا جا رہا ہے۔
رانا نے کہا کہ کوئٹہ شہر کی آبادی تقریباً 30 لاکھ ہے اور اگر ہر شخص کے لیے 20 گیلن پانی مختص کیا جائے تو شہر کو روزانہ 6 کروڑ گیلن پانی کی ضرورت ہے۔ تاہم، واسا، کنٹونمنٹ بورڈ اور پبلک ہیلتھ مل کر صرف 3 کروڑ 40 لاکھ گیلن پانی فراہم کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ شہر کو روزانہ 2 کروڑ 60 لاکھ گیلن پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے، شہریوں کو ٹینکروں سے پانی خریدنا پڑتا ہے، جو ایک مہنگا اور غیر پائیدار حل ہے۔
رانا نے کہا کہ پانی کی قلت کی وجوہات میں خشک سالی، زیر زمین پانی کی سطح میں کمی، اور پانی کے ضیاع شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو ان مسائل کو حل کرنے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کوئٹہ کے شہریوں کو صاف پانی تک رسائی حاصل ہو۔
واسا نے پانی کی بچت کے اقدامات پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے، بشمول کم بہاؤ والے شاور ہیڈز اور ٹوائلٹس کی تنصیب اور لیک اور غیر قانونی کنکشن کی مرمت۔ تاہم، ان اقدامات کو پانی کی قلت کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کافی نہیں سمجھا جاتا ہے۔
حکومت کو پانی کے وسائل کو بہتر طریقے سے منظم کرنے، زیر زمین پانی کے ذخائر کو دوبارہ بھرنا، اور پانی کی ضیاع کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے پانی کی بچت کے شعور کو فروغ دینے کے لیے مہمات بھی شروع کرنے چاہئیں۔
کوئٹہ کے شہری بھی پانی کی بچت میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔ وہ کم پانی استعمال کرنے والے آلات استعمال کر سکتے ہیں، اپنے گھروں میں پانی کے ضیاع کو کم کرنے کے لیے اقدامات کر سکتے ہیں، اور پانی کی بچت کی اہمیت کے بارے میں دوسروں کو آگاہ کر سکتے ہیں۔
ماہرینِ آب نے خبردار کیا ہے کہ بلوچستان میں پانی کی قلت ایک سنگین مسئلہ ہے اور اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو اس کے دور رس نتائج ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت صوبے میں جو پانی استعمال کیا جا رہا ہے وہ آئندہ نسلوں کے حصے کا پانی ہے اور اس لیے بارش کے پانی کو بچانا ناگزیر ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر دین محمد کاکڑ، جو ایک ماہر ارضیات ہیں، نے کہا کہ بلوچستان ایک خشک اور گرم صوبہ ہے جہاں سالانہ بارش بہت کم ہوتی ہے۔ تاہم، جب بارشیں ہوتی ہیں تو پہاڑوں اور ندیوں سے وافر مقدار میں پانی آتا ہے۔ بدقسمتی سے، یہ پانی اکثر ضائع ہو جاتا ہے کیونکہ اسے صحیح طریقے سے ذخیرہ نہیں کیا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں موسمیاتی تبدیلیاں بھی پانی کی قلت کے مسئلے کو بڑھا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بڑھتی ہوئی گرمی کی وجہ سے برف اور گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، جس سے پانی کی کمی ہو رہی ہے۔