کوئٹہ ( اسٹاف رپورٹر ) بلوچستان میں کثیر الجہتی غربت 86فیصد ہے ،فاٹا میں غربت 87فیصد ہے ۔بے روزگاری ہے 62 فیصد لوگ بجلی سے محروم ،
88فیصد توانائی کے منصوبوں سے محروم ہیں انسانی ترقی کے ذرائع انتہائی محدود ہیں سی پیک کی مد میں ملک بھر میں62ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی
لیکن بلوچستان کونظر انداز کیا گیا جس کی وجہ سے صوبے کے عوام میں احساس محرومی پائی جاتی ہے صوبائی حکومت وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ سی پیک کی مد میں کی جانیوالی غیر
منصفانہ تقسیم کی بابت فوری طور پر ایک قومی کمیشن کی تشکیل کااعلان کرے۔
بلوچستان کو سی پیک منصوبے کی تفصیلات اور رقبے کی بنیاد پر اس کاحق اد اکرنے کو یقینی بنائے تاکہ صوبے کے عوام میں پانی جانیوالی احساس محرومی کا ازالہ ممکن ہو۔
سابق دو رحکومت میں 52ایم یوز ہوئے اکثر بلوچستان سے متعلق تھے مگر بلوچستان کاخیال نہیں رکھا گیا حتیٰ کہ خود گوادر کو بھی نظر انداز کیا گیا آج تک ہم نہیں جانتے کہ گوادر پورٹ سے متعلق چینی کمپنی کیساتھ جو معاہدہ ہو ااس میں کیا ہے اس معاہدے کو ایوان میں لا یا جائے بلوچستان اسمبلی میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ کی قرار داد
ثناء بلوچ نے اہم مسئلے پر قرار داد پیش کی جس کی ہر بلوچستانی حمایت کرتا ہے نواب ثناء اللہ زہری
سی پیک منصوبے کے تحت انرجی پارک بننے تھے ہماری حکومت میں شامل کیے جانیوالے ماس ٹرانزٹ ٹرین اور کوئٹہ کو پٹ فیڈر کینال سے پانی کی فراہمی کے منصوبے موجودہ حکومت نے ختم کردئیے ،پشتونخوامیپ کے نصر اللہ زیرے کا قرار داد پر اظہار خیال
سی پیک پر ہر بلوچستانی کا موقف ایک ہی ہے پچھلی حکومت میں ژوب میں ایشیئن ڈویلمپنٹ بینک اور ورلڈ بینک کے منصوبوں کا افتتاح کرکے اسے سی پیک کا نام دیا گیا اور پوری قوم سے غلط بیانی کی گئی ،اے این پی کے پارلیمانی لیڈر اصغل
سی پیک میں بلوچستان کی حق تلفی میں نہ صرف وفاق بلکہ صوبائی حکومتیں بھی ذمہ دار ہیں ،ہمیں ستر سال سے نظر انداز کیا جارہا ہے ،متحدہ مجلس عمل کے سید فضل آغا
چین کو گوادرکی سرزمین چاہیے ہمیں اپنی زمین کادفاع کرنا ہے ،بی این پی کے احمد نواز بلوچ کا موقف
قوم پرست اپنی حکومت میں خواب خرگوش میں تھے اب وقت گزرچکا ہے ،صوبائی وزیر سردار عبدالر حمان کھیتران کا جداگانہ موقف
سی پیک کے حوالے سے بہت سے خواب دکھائے گئے لیکن ان میں سے کوئی بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا ،بی این پی عوامی کے سید احسان شاہ کااظہار خیال
پچھلی حکومت سی پیک کی تعریفیں کرتی نہیں تھکتی تھی لیکن اس منصوبے سے اب تک بلوچستان کو کچھ حاصل نہیں ہوا ہمین صوبے کے وسائل ،ساحل کے دفاع کیلئے ایک ہوکر مشترکہ جنگ لڑی ہے
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان
پانچ سال میں سی پیک کے حوالے سے بلوچستان میں کوئی کام نہیں ہوا جوائنٹ ورکنگ گروپ جو منصوبوں کی منظوری دیتا ہے اس میں ہمارے وزرائے اعلیٰ گئے مگر انہوں نے کوئی کردار اد انہیں
کیا
ہم نے پہلی بار صوبائی کابینہ کو سی پیک کے حوالے سے آگاہی فراہم کی سی پیک میں بلوچستان کامالی حصہ چار فیصد ہے جو تعلیم ،صحت ،روزگار کی فراہمی کے بجائے گڈانی کول پاور پلانٹ اور گوادر کی ڈویلپمنٹ پر خرچ ہوچکا ہے
صوبے کو عملی طور پر منصوبے کاایک فیصد بھی نہیں ملا اب ہمیں ماضی کو بھلا کر حال کی بات کرنی ہے جوائنٹ ورکنگ گروپ سے بلوچستان کی ایک بھی اسکیم منظور نہیں ہوئی وہ اسکیم جو منظور ہوسکتی ہے وہ صرف ژوب ،ڈی آئی خان ستر کلو میٹر کا ایک حصہ ہے
ہمیں بتایا گیا کہ اس سٹیج پر اب ہم کچھ منظور نہیں کراسکتے سی پیک منصوبے کے 52ارب میں سے گراؤنڈ پر 29ارب کے منصوبے چل رہے ہیں جن میں ہمارا کوئی حصہ نہیں اگر گزشتہ حکومتیں جوائنٹ ورکنگ گروپ میں صوبے کا موقف رکھتیں تو آج صورتحال مختلف ہوتی
ماضی میں بلوچستان میں بلوچستان کو پانچ ہزار ارب میں سے چار ارب روپے ملے ہمیں وفاقی پی ایس ڈی پی میں سے صرف ساڑھے تین فیصد حصہ مل رہا ہے جبکہ این ایف سی ایوارڈ کے بعد ہمار ا حصہ نو فیصد ہے ہمیں کم از کم سات سے آٹھ فیصد حصہ ملنا چاہیے ۔
پچھلے پانچ سال میں ہمیں وفاق سے کوئی بڑا منصوبہ نہیں ملااور جو پیسے ملے وہ پندرہ سال پرانی اسکیموں پر خرچ ہورہے ہیں ہماری پارٹی وفاقی حکومت کی اتحادی ضرور ہے لیکن ہم بلوچستان کے حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرینگے
اگر ہمیں محسوس ہوگا کہ وفاقی حکومت ہمیں ٹرخارہی ہے تو ہم اپنے حقوق کی آواز بلندکرینگے
بہت سے علاقوں میں ایسی کمپنیاں کام کررہی ہیں جو دس سے پندرہ سال سے علاقے میں ہیں مگر نہ تو وہ خود کام کررہی ہیں نہ ہی کسی اور کو کرنے دی رہی ہیں ہم ایسی کمپنیوں
کیخلاف صوبے کے حق میں فیصلہ کرینگے