رپورٹ۔ مہک شاہد
بلوچستان میں بہت ٹیلنٹ ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن یہاں سہولیات کی کمی ہے جس کی وجہ سے یہاں سے کھلاڑی نکل کر سامنے نہیں آرہے ہیں۔ یہاں ہر کھیل کے کھلاڑی مل جائینگے لیکن وہ کسی بھی نیشنل یا انٹرنیشنل سطح پر جانے کیلئے سہولیات کی کمی کاشکار ہیں اور حکومت کے دعوؤں کے باوجود یہاں پر کھیلوں کے فروغ کیلئے عملی اقدامات نہیں ہوتے اس کی بڑی وجہ کھیلوں کے میدانوں کی کمی ،منصوبوں کے سالوں سال چلنے کا مسئلہ شامل ہے
ملک میں جہاں کرکٹ کو ہر جگہ پزیرائی دی جاتی ہے لیکن کوئٹہ میں کرکٹ کے کے کھلاڑی ناکافی سہولیات کے باعث مایوس کا شکار ہیں ، یہاں اعلی سطح کی کرکٹ کی کمی ہے اس کے علاوہ اکیڈمی اور گراوٴنڈز کی بھی کمی ہے۔
بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال جہاں دیگر شعبوں پر توجہ دے رہے ہیں وہاں انہیں کھیلوں کے مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے
سہولیات کی کمی کے باوجود یہاں سے کھلاڑی صوبے کا نام روشن کررہے ہیں ان ہی میں ایک ایسا نام بھی ہے جس نے بہت محنت اور ڈومیسٹک کرکٹ میں ہمیشہ اچھی سے اچھی کارکردگی دکھانے کی کوشش کی ہے۔ وکٹ کیپر بیٹسمین بسم اللہ خان جنہوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری اور جب بھی موقع ملا اچھی پرفارمنس دینے کی کوشش کی
2015 میں جب پہلی بار پاکستان سپر لیگ کی ڈرافٹنگ ہوئی تو کوئٹہ کے اسکواڈ میں بسم اللہ خان کا نام بھی شامل تھا لیکن بدقسمتی سے انہیں بہت کم میچوں میں موقع دیا گیا اور پھر کوئٹہ کی ٹیم سے ہی ڈراپ کر دیا گیا۔ بسم اللہ خان نے اپنا پہلا پی ایس ایل کا میچ جب کھیلا تھا تو لاہور قلندرز کی ٹیم کے خلاف ففٹی اسکور کی تھی۔ اس کے بعد انہیں موقع نہیں دیا گیا اور اب 2 سال سے وہ پی ایس ایل سے دور ہیں۔
بلوچستان24 کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے بسم اللہ خان کا کہنا تھا کہ ” اس بار پی ایس ایل میں نام نہیں آیا تو بہت دکھ ہوا تھا لیکن میں ہمت ہارنے والوں میں سے نہیں ہوں میری کوشش یہی ہے کہ میں محنت زیادہ سے زیادہ کروں، میرا کام اچھی پرفارمنس دینا ہے ہم کھلاڑیوں کے اختیار میں صرف اچھی پرفارمنس دینا ہے اس کے علاوہ ہم کچھ نہیں کر سکتے “
کوئٹہ میں کرکٹ کے مسائل کے بارے میں بات کرتے ہوئے بسم اللہ خان کا کہنا تھا کہ ” سب سے بڑا مسئلہ کوئٹہ میں کرکٹ اکیڈمی اور گراوٴنڈ کا نہ ہونا ہے۔ کھلاڑی اپنی مدد آپ کے تحت سیمنٹ وکٹ بناتے ہیں اور وہ اس لیول کی نہیں ہوتی جہاں پر جا کر پریکٹس کی جائے۔ یہاں پر اکیڈمی نہ ہونے کی وجہ سے نوجوان آگے نہیں جا پاتے “
پاکستان کے دوسرے شہروں کی اپنی اپنی فرسٹ کلاس ٹیمیں ہیں لیکن بدقسمتی سے کوئٹہ کی فرسٹ کلاس ٹیم نہیں ہے، کوئٹہ سے کھلاڑی دوسری ٹیموں کے لئے کھیلتے ہیں اور وہ بھی گریڈ ٹو میں کھیلتے ہیں جہاں انہیں تین سے چار میچوں میں ہی کھیلنے کا موقع ملتا ہے اور اعلی سطح کی کرکٹ کے لئے گریڈ ٹو کی پرفارمنس پر غور نہیں کیا جاتا ہے اس سے متعلق بسم اللہ خان کا کہنا تھا
” گریڈ ٹو کی پرفارمنس پر کوئی غور نہیں کرتا ہے جب بھی سلیکٹرز سے بات کی جائے تو وہ کہتے ہیں کہ گریڈ ٹو میں نہیں فرسٹ کلاس میں پرفارمنس دو۔ بلوچستان کے پاس کوئی فرسٹ کلاس ٹیم نہیں ہے ہمارے کھلاڑی کہاں پرفارمنس دیں حکومت سے درخواست ہے کہ وہ ہمارے شہر میں کرکٹ کے مسائل پر بھی غور کریں، کوئٹہ کی بھی فرسٹ کلاس کی ٹیم ہونی چاہیے اگر فرسٹ کلاس کی ٹیم دے دیں تو یہاں سے بھی ٹیلنٹ نکل کر آگے جائیگا“
کوئٹہ میں کرکٹ کے بہت سے مسائل ہیں لیکن نظر انداز کیا جاتا رہا ہے حکومت کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے دوسرے صوبوں کی طرح بلوچستان پر بھی توجہ دے یہاں کرکٹ کے مسائل کو ختم کرنے کی کوشش کرے، اگر تھوڑی سی توجہ دی جائے تو یہاں سے بھی ٹیلنٹ نکل کر آگے جاسکتا ہے، اس کے علاوہ نظر انداز کئے جانے والے کھلاڑی بسم اللہ خان کو نظر انداز کرنے کی بجائے باقی قومی کھلاڑیوں کی طرح زیادہ مواقع فراہم کیے جائیں تو وہ بھی پاکستان کا نام روشن کر سکتے ہیں