ویب ڈیسک
سپریم کورٹ میں جہانگیرترین نااہلی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہیں کہ جہانگیرترین کے کمپنی سے متعلق جواب میں بے ایمانی نظرنہیں آتی،اس کیس میں ایمانداری کودیکھنا ہے،
بظاہرفارن کرنسی اکاونٹ کی رقم بیرون ملک منتقل ہوئی، دیکھنا ہے کیارقم کی منتقلی اورجائیدادخریداری میں بے ایمانی ہوئی؟ ۔
کو چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اورجسٹس عطاءبندیال پرمشتمل عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے جہانگیر ترین کی نااہلی کےلئے حنیف عباسی کی درخواست پر سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جہانگیر ترین نے آف شورکمپنی قائم کرنے کےلئے ادائیگی بذریعہ بینک کی ، انہوں نے دو ہزار گیارہ میں پچیس لاکھ پاو¿نڈ ،دو ہزار بارہ میں پانچ لاکھ پاو¿نڈ جبکہ دوہزار چودہ میں گیارہ لاکھ ڈالربیرون ملک منتقل کئے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ دو ملین سے زائد کا قرض ای ایف جی بینک سے لیا گیا اس وقت قرض کی موجودہ رقم پندرہ لاکھ پاو¿نڈز ہے،عدالت کے استفسار پر جہانگیر ترین کے وکیل نے بتایا کہ شائنی ویوکمپنی بینک کوقرضہ واپس کرتی تھی،
اگر عدالت حکم دے تو آف شور کمپنی کے اکاونٹ کی تفصیلات منگوا لوں گا جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ دستاویزات سے معلوم نہیں ہوتا کہ رقم کسی اکاو¿نٹ میں منتقل ہوئی جبکہ چیف جسٹس نے کہا کہ جہانگیرترین کے کمپنی سے متعلق جواب میں بے ایمانی نظرنہیں آتی،بظاہرفارن کرنسی اکاو¿نٹ سے رقم بیرون ملک منتقل ہوئی، یہاں سوال یہ ہے کہ کیارقم کی منتقلی اورجائیداد کی خریداری میں بے ایمانی ہوئی، جہانگیرترین کے کیس میں ہم نے ایمانداری کودیکھناہے۔
ایک موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ جب تک بے نامی داراعتراف نہ کرے وہ مالک ہی رہتاہے اس پر وکیل جہانگیر ترین نے کہا کہ رقم منتقلی پراسٹیٹ بینک اورٹیکس اتھارٹیزنے اعتراض نہیں کیا۔
حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ جہانگیرترین نے بچوں کوکروڑوں روپے تحفے میں دیئے اس پر سکندر بشیر کا کہنا تھا کہ تحفہ دی جانے والی رقم پرجہانگیرترین نے ٹیکس اداکررکھاتھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیاتحائف کے تبادلوں کوکسی جگہ چیلنج کیاگیا؟،کیا تحائف کے تبادلے پرٹیکس حکام نے کوئی نوٹس دیا؟۔
اس پر سکندر بشیر مہمند نے کہا کہ ٹیکس حکام کوریکارڈ سے مطمئن کیاگیا۔ جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ جہانگیرترین نے زرعی آمدن پرٹیکس دیا۔ وکیل جہانگیر ترین نے کہا کہ زرعی آمدن کامعاملہ متعلقہ فورم پرزیرالتواہے اس پر جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ ویلتھ گوشواروں میں ٹرسٹ کوظاہر نہیں کیاگیا،ویلتھ گوشواروں میں بچوں کے تحائف کوظاہرکیاگیا؟، بچوں کے اثاثے گوشواروں میں ظاہرکرناہوتے ہیں۔ سکندر بشیر نے جواب دیا کہ صرف زیرکفالت بچوں کے اثاثے ظاہرکرناضروری ہوتا ہے،جہانگیرترین کے بچے شادی شدہ ہیں اوران کی اپنی آمدن ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ جہانگیرترین بیرون ملک اپنے گھر جاکررہتے ہیں؟ ۔ اس پر سکندر بشیر نے کہا کہ ہائیڈ ہاوس کورہائش کیلئے استعمال کیاجاتا ہے،گھر کی ملکیت ٹرسٹ کے نام پر ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ٹرسٹ ختم ہوجائے تو جہانگیرترین کو کیا ملے گا؟۔ اس پر سکندر بشیر مہمند نے کہا کہ ٹرسٹ ختم ہوجائے تواثاثے کی تقسیم سے جہانگیرترین کوحصہ ملے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اکرم شیخ کے مطابق پاناما کیس اورعمران خان کے کیس میں مطابقت ہے،آپ یہ بتائیں ان مقدمات میں عدم مطابقت کیاہے وکیل نے جواب دیا کہ حسین نواز کا ٹرسٹ جہانگیر ترین کے ٹرسٹ سے مختلف تھا۔حسین نواز کمپنیوں کے بنیفشل مالک تھے جبکہ جہانگیر ترین کے ٹرسٹ میں وہ بنیفشل مالک نہیں اس مقدمے میں جہانگیرترین نے دستاوہزات پیش کی ہیں۔بشیر مہمند نے عدالت کو بتایا کہ پانامہ مقدمے میں نواز,شریف اپنی پوزیشن ثابت کرنے میں ناکام ہوئے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے زرعی اراضی کے معاملے پرٹھوس دستاویزات نہیں دیئے سرکاری ریکارڈ سے اٹھارہ ہزار ایکڑ حاصل کرنا ثابت نہیں ہوتا۔ جہانگیر ترین کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے سماعت 7 نومبر تک ملتوی کر دی۔