تحریر: صباہ شکیل
سرکاری اسکولوں کی اکثر و بیشتر بندش اور خستہ حالی کوئی ایک نئی بات نہیں ہے۔
اِس نحوست سے واقف اور پریشان تو ہر کوئی ہے لیکن آج ملیئے اندھیرے دور میں ایک روشن چراغ سے۔
مجبورآباد پنجگور شہر سے کافی فاصلہ پر واقع ایک گاؤں ہے جہاں ایک ایساسرکاری اسکول موجود ہے جو کسی بھی نجی اسکول سے کم نہیں، جہاں علم کے روشنی سے طالب علموں کے ایسے روشناس کیا جارہا ہے جیسے بڑے شہروں میں طلباء کو کیا جاتا ہے۔
اس اسکول میں رسمی تدریسی علوم سے لیکر غیر رسمی و علمی سرگرمیوں تک، پراجیکٹس سے لیکر مختلف ایکٹیویٹیز تک نیز تعلیم و ترقی کے ہر پہلو سے طالب علموں کو واقف کیا جاتا ہے۔
جہاں اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے وہیں اس نا قابل یقین بات کی حقیقت “گورنمنٹ گرلز پرائمری اسکول مجبوراباد” کی شکل میں پنجگور کے دور دراز پسماندہ گاؤں مجبوراباد میں موجود ہے۔
مِس راحیلہ اس اسکول کی واحد معلمہ ہے جو ہما وقت اپنی ڈیوٹی پر موجود رہتی ہیں۔
وہ اکیلی اس اسکول میں 80 سے زائد طالبات کو علم سیکھنے کے عمل میں مصروف عمل رکھی ہوئی ہیں۔
یہ اسکول شھر سے کافی دوری پر ایک گاؤں میں واقع ہے لیکن یہ بات نہ کبھی کوئی بہانہ بنی اور نہ ہی کبھی یہ بات اِس معلمہ کے لیئے معیاری تعلیم نی دینے کا سبب بنی۔
کہتے ہیں نہ کہ جب کوئی ٹھان لیتا ہے کہ یہ معاشرے مجھ سے ہے اور میں اِسی معاشرے سے ہوں تو وہ یہ نہیں دیکھتا کہ مشکلیں کتنی ہیں، مصیبتیں کیسی ہیں، بلکہ وہ صرف یہ دیکھتا ہے کیا بدلنا ہے، کہاں بدلنا ہے اور کیسے بدلنا ہے۔
مِس راحیلہ نے یہ ثابت کر دیا کہ اگر محنت ہو، ارادہ ہو اور جزبہ ہو تو کسی سرکاری اسکول کو بھی ایک معیاری اسکول کے برابر لا کر کھڑا کیا جا سکتا ہے۔
انسان تو سب ایک جیسے ہوتے ہیں لیکن جس میں ظرف ہوتا ہے وہ باقی انسانوں سے کہیں زیادہ بہتر اور پر اعتماد ہوتا ہے۔
کیا ہوتا کہ ہر کوئی ایسے ظرف کا مالک ہوتا جس ظرف کی مالکن مِس راحیلہ ہیں۔
یہ بھی ہو سکتا تھا وہ بھی باقیوں کی طرح گھر بیٹھ کر اپنی تنخواہ لیتی اور قوم کے مستقبل کا نا سوچ کر آرام کرتی لیکن انہوں نے اسکو اپنا ظرف کم بلکہ قومی زمہداری سمجھ کر ادا کیا۔
مِس راحیلہ کی کہانی اس بات کا ثبوت ہے کہ خلوصِ نیت کے ساتھ اگر کوئی چاہے تو وہ معاشرے میں ایسی انگنت تبدیلیاں لا سکتا ہے جس کا فائدے معاشرے کے ہر فرد کو ہوگا۔
مِس راحیلہ اُن تمام اساتذہ کے لیئے ایک مثال ہے جو کہتے ہیں کہ سرکاری اسکولوں مثبت تبدیلی لانا ممکن نہیں ۔
اگر ہو ہمت، جوش اور ایمانداری تو یہ ممکن ہیکہ صحرا میں پھول کھلائے جا سکتے ہیں۔