روٹی ،کسی کی بھوک مٹانے کاذریعہ اور کسی کے گھر چلانے کاوسیلہ

0

رپورٹ۔۔۔۔۔۔ عبدالکریم

آٹے سے لتھڑے ہوئے ہاتھ اور قمیض پر آٹا لگا ہوا ہے دیواروں پر سیاہی لگی ہے اس کے سامنے چندپیڑے رکھے ہیں جنہیں وہ گول گول بنانے کی کوشش کررہا ہے اس کے پیچھے بھی بہت سے پیڑے رکھے ہیں وہ اس دوران شاید کسی خیال میں گم ہے اس کے قریب کسی ترازو کا ایک حصہ بھی نذر آرہا ہے

یہ ایک کمسن بچہ ہے جو بظاہر لگتا ہے کہ آٹے کیساتھ کھیل رہا اور ابھی اس کی ماں قریب سے نکل کراسے ڈانٹ دیگی کہ ہٹ جاؤ یہاں سے کیوں اپنے ہاتھ اور کپڑے گنداکررہا ہے

مگر یہ کسی گھر کامنظر نہیں بلکہ ایک دکان ہے جسے سامنے والے حصے کو جالی لگا کر اسے کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا ہے تاکہ ہوا اندر نہ آسکے اس کے اور چادر کی چھت ہے باہر ایک شخص کھڑا ہے اور اندر بیٹھے بچے سے بات چیت کررہاہے

کوئٹہ شہر سے پندرہ کلو میٹر کے فاصلے پر کوئٹہ سبی شاہراہ پر ایک تندور کوچند بچے جن کی عمر سکول جانے اور گلیوں ،میدانوں میں دوڑنے بھاگنے اور کھیلنے کی ہے مگر وہ اپنے گھر کا بھاری بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں

یہ بھی پڑھیں
1 of 8,658

افغانستان میں جنگ کے باعث حالات خراب ہونے پر یہ خاندان وہاں سے ہجرت کرکے کوئٹہ پہنچا تھا اور ان کے والد نے تندور کا کام شروع کردیا اور گھر کاخرچہ چلانے لگا لیکن چند عرصے سے وہ بیمار ہوگیا او ر گھر کابوجھ ان کمسن بچوں کو اٹھانا پڑا

لالئی جو ان بچوں میں بڑھا ہے وہ تندور میں روٹیاں لگاتا ہے وہ کہتا ہے کہ کہ میرا دل کرتا ہے کہ میں سکول جاؤں او ر دوستوں کیساتھ کرکٹ کھیلوں لیکن گھر کے حالات اور والد کی بیماری نے مجھے یہ کام کرنے پر مجبور کردیا

لالئی کہتا ہے کہ میں صبح اٹھ کر اپنے چھوٹے بچوں بھائیوں کے ساتھ تندور جاتا ہوں راستے میں جب بچوں کو سکول جاتے ہوئے دیکھتا ہوں تو خود اور بھائیوں کو بدقسمت سمجھتا ہوں کہ ہم تعلیم جیسے زیور سے محروم ہیں

لالئی اپنے تین کمسن بھائیوں کیساتھ تندور چلاتا ہے جن کی عمر کھیلنے اور پڑھنے کی ہے لیکن گھر کے حالات اور کوئی آسرا نہ ملنے کے باعث وہ تندور خود چلانے پر مجبور ہیں

حالات کبھی بچوں سے ان کا بچپناچھین لیتا ہے اور وہ بھاری بوجھ اٹھانے پرمجبور ہوتے ہیں لیکن معاشرہ ان کے کام کرنے کی وجہ نہیں دیکھتا

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.